سوال (1475)

لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر کسی لڑکے سے کورٹ میرج کر لیتی ہے ، کچھ مدت بعد کسی وجہ سے اسے طلاق دے دیتا ہے، پھر صلح ہو جاتی ہے ، پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد دوسری بار طلاق دیتا ہے اور صلح بھی ہوتی جاتی ہے اور تیسری بار پھر طلاق دے دیتا ہے۔
بغیر ولی نکاح باطل ہے تو اب پوچھنا یہ ہے
(1) : کہ اگر ولی رضامند ہو جائے تو ان کے لیے شرعی طریقے سے نکاح کی گنجائش ہے؟
(2) : اگر ولی والد اب بھی رضا مند نہیں ہوتا تو ان کیلیے نکاح کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟

جواب

میرے خیال میں شریعت کے ساتھ کھلواڑ اور استہزاء کا معاملہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ، مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے لڑکے ، لڑکیاں اور ان کے ذمے داران اتنی بے علمی اور جہالت سے کام لے رہے ہیں ، یہ استہزاء کے زمرے میں آتا ہے ، قانوناً تو یہ اپنا حق پورا کر چکے ہیں ، قانوناً نکاح ہوگیا اگرچہ ایک شرط کم تھی ، قانوناً وہ فارغ بھی ہوگئے ہیں ، لہذا اب کوئی صورت نہیں ہے ، بھلے ولی کی رضامندی ہو یا نہ ہو ، یہ اپنے معاملات مکمل کر چکے ہیں ، اب کوئی صورت نہیں ہے ، الا یہ کہ “حتی تنکح زوجا غیرہ” والی بات ہوجائے ، یاد رکھیں کہ وہ بھی اتفاقی طور پر ہو جائے نہ کہ مشروط اور فرمائشی ہو ، ایسے لوگوں کو غیر ضروری طور پر کوئی گنجائش نہیں دینی چاہیے ، سخت تنبیہ کرنی چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ