کوئی ایک گناہ

زندگی کے اس طویل سفر میں کتنے ہی موسم بدلے، کتنی رُتوں نے اپنے تیور اور پینترے بدل کر اپنے مزاج میں تُرشی اور کھٹاس پیدا کی، کتنے ہی نشیب و فراز نے انسان کی سانسیں پُھلا دیں، کتنے ہی سانحوں نے زندگی کے ڈھب بدل ڈالنے کے مواقعے فراہم کیے، کتنی ہی رنجیدہ اور سنجیدہ پیچیدگیاں انسان کے لیے سدّ راہ بنیں اور کتنے الم ناک واقعات نے انسان کے احساسات کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ایسے کتنے حادثات ہیں، جنھوں نے انسان کی نخوت کی کمر اچھی طرح توڑ کر رکھ دی۔ اِس کے اندر پَلتے کِبر کو روند کر رکھ دیا مگر بڑے بڑے خوں چکاں واقعات کا اثر بھی دیرپا ثابت نہ ہوا۔ محض دو چار دن بعد ہی انسان سابقہ نافرمان رَوِش پر لَوٹ آتا ہے۔ یہ حضرت انسان گناہ پر اتنا ڈھیٹ ہو چکا ہے کہ خود کو بدلنے پر آمادہ ہی نہیں۔ کیا انسان کی عقل مسلوب و مسموم ہو چکی؟ کیا اس نے کلیجے چِیر دینے والے دل فگار سانحات نہیں دیکھے؟ کیا اس نے پلک جھپکتے میں گھروں کو اجڑتے اور برباد ہوتے نہیں دیکھا؟ کیا یہ انسان بھول گیا ہے کہ محض ایک حادثے میں ہی سارا خاندان ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے؟ کیا لوگ یہ نہیں پڑھ چکے کہ ایک ماں کے تین تین چار چار بیٹے ایک حادثے میں دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ زیادہ نہیں فقط چند ساعتوں کے لیے غور کریں کہ جس ماں کے بیٹے موت کا نوالہ بن جائیں اور ایک ہی روز تین بیٹوں کے جنازے یک دم اٹھیں تو کیا ایسی ماں زندہ رہ سکتی ہے؟ ایسی کتنی ہی الم ناک داستانین ہیں جو ہماری آنکھیں دیکھ چکی ہیں۔ جب آزمایش اور مصائب و آلام انسان کا پیچھا کرنا شروع کر دیں تو محض چند لمحوں میں خاندان اجڑ جایا کرتے ہیں۔ پھر خوشیوں سے لدے پھندے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جایا کرتی ہے، پھر روشن، چمک دار اور سہانی آنکھوں میں بھی آنسوؤں کی جَھڑی لگ جایا کرتی ہے پھر گِریہ اور نوحہ انسان کے رگ وریشے میں اتر جاتا ہے۔
ہم اَن گنت لوگوں کی نمازِ جنازہ پڑھ چکے، نمازِ جنازہ کے دوران بھی ہمارے ذہنوں میں یہ احساس نہ کوندا کہ ایک دن مَیں بھی یوں ہی بے حس وحرکت پڑا ہوں گا، ایک دن ایسا بھی آئے گا جب میری نمازِ جنازہ کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں گے اور یقیناً وہ دن ضرور آئے گا، جب میرے کفن دفن کے لیے جلدی کرنے کی ہر کسی کو پڑی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ سب نے ہی مر جانا یے اور ہر کسی نے اپنے اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ اس نافرمان انسان نے ہزاروں خرافات زندگیوں میں داخل کیں، موت سے غافل اس انسان نے ڈھیروں بدعات کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا لیا۔ اس بے بس اور بے اختیار انسان نے مستقل بنیادوں پر بے شمار گناہوں سے اپنے اعمال کو آلودہ کیا اور ایسا کرنے میں کبھی توقف بھی نہ کیا۔ ساقی فاروقی نے اس کی عکاسی یوں کی ہے۔
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش
اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے
اس انسان نے کسی جگہ رُک کر کبھی غور ہی نہ کیا، گناہوں کے مرگھٹ پر دَم توڑتے ہوئے اس باغی انسان کے اندر کبھی خود احتسابی کی کوئی کلی نہ چٹکی۔ اللہ کی نافرمانیوں کی تِیرہ شبی میں اطاعت و تابع فرمانی کی کوئی ایک کرن نہ پھوٹی۔ انسان نے اپنے جسم کھود کھود کر جہنّم کے انگارے بھرے، اس نے اپنی روح کو چھید چھید کر گناہوں کی رطوبت انڈیلی، اس نے اپنے احساسات کو چاک چاک کر کے ان میں رب کی نافرمانیوں کو داخل کیا، اس نے اپنے تخیّلات کو پارہ پارہ کر کے ان میں عصیان اور شیطان کو داخل کیا اور اِسی انسان نے اپنی عادات کو ایسی ڈگر پر رواں کر دیا کہ روزے بھی رکھے… سحریوں میں بھی تکلّفات کے انبار لگا دیے اور افطار پارٹیوں کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازیاں بھی کیں مگر گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لیے کوئی ارادہ نہ کیا۔ روزے کے حقیقی تقاضوں سے بے خبر اور بے پروا انسان کچھ ایسے سانچے میں ڈھل گیا کہ روزے کے ساتھ ساتھ وہ ناآسودہ خصلت پر جوں کا توں قائم ریا۔ واصف دہلوی نے کہا تھا
دامن کے داغ اشکِ ندامت نے دھو دیے
لیکن یہ دل کا داغ مٹایا نہ جا سکا
روزہ داروں نے اپنی ساری مساعی اور تگ و دَو محض دو مواقعے تک محدود کر دِیں۔ ایک سحری اور دوسری افطاری، روزے کے دوران گناہ سے بچنے کے ہر احساس کو اپنے دل سے نکال دیا۔لوگوں کی اکثریت اسی سراب میں مبتلا ہے کہ شاید کھانا پینا ترک کر دینا ہی روزہ ہے، حالاں کہ اللہ ربّ العزّت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ صحیح بخاری میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یوں مرقوم ہے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا تو اللہ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے“ اسی طرح ایک حدیث میں اس غلط فہمی کو واشگاف الفاظ میں دُور کیا گیا ہے کہ جو محض بھوک اور پیاس کو روزہ سمجھنے کے لیے پیدا ہو چکی ہے۔”حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ، کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ بے ہودہ اور فحش گوئی سے رکنے کا نام ہے، اس لیے اگر کوئی روزہ دار سے گالی گلوچ کرے یا جہالت سے پیش آئے تو اسے کَہ دینا چاہیے کہ مَیں روزے سے ہوں“( ابنِ خزیمہ) اگر روزہ دار تقویٰ کے اثرات تک پیدا کرنے کی جستجو نہیں کرتا تو وہ روزہ محض بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔
ہمیں اپنے اس نصیب پر شاداں، فرحاں اور نازاں ہونا چاہیے کہ ایک اور رمضان کی ساعتیں ہمیں نصیب ہوئیں۔ یہ ماہِ صیام کے مبارک اور سعید لمحات ہیں، اگر ہم نے اس ماہِ مبارک میں اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر گناہوں سے پاک کرنے کا مصمّم ارادہ کر لیا ہے تو ہم بڑے ہی سعید بخت ہیں لیکن اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو مَیں صرف ایک گناہ کی بات کرنے لگا ہوں، وہ ایک گناہ ہر انسان کی زندگی میں کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ایک ایسا گناہ جس کے ہم عادی ہیں کہ ماہ صیام کے ایام میں صرف وہی ایک گناہ ترک کرنے کا وعدہ اپنے اللہ سے کر لیں اور پھر کبھی اس گناہ کو دوبارہ نہ کریں… فقط ایک گناہ ترک کر دیجیے… اپنے اللہ سے وعدہ کیجیے کہ اے اللہ! جب تک میں زندہ رہوں گا یہ ایک گناہ کبھی نہیں کروں گا، اگر آپ نے ایسا کر لیا تو مجھے یقین ہے کہ رب کی رحمتیں چھما چھم برسنے لگیں گی اور ترکِ گناہ کا یہ عہد اللہ کی رحمتوں کے کئی دَر وا کرنے کا سبب بنے گا۔ (ان شا ء اللہ)

(انگارے..حیات عبداللہ)

یہ بھی پڑھیں: ستر چیزیں جن سے نبی کریمﷺ پناہ مانگا کرتے تھے