سوال
پاکستان میں کوئی بھی قانونی کام کروانے کے لیے جہاں پر 100 روپے لگتے ہیں وہاں پہ 500 دینے پڑتے ہیں۔
جیسے ہم اپنے یا بچوں کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں تو پہلے تو یونین کونسل والوں کے نخرے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ سب ڈرامے ان کے اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیں اضافی رقم دیں۔ جہاں ایک سرٹیفکیٹ 1000 کا بنتا ہے وہاں ہزار کی بجائے انہیں 5000 دیں تو فورا بنا کر دے دیں گے، لیکن اگر آپ نہ دیں تو ہر روز آپ کے چکر لگواتے ہیں صرف پیسوں کے لیے اور جیسے ہی آپ کہیں کہ پلیز آپ مدد کر دیں ہم آپ کو کچھ دے دیں گے، تو فورا آپ کا کام کر کے دے دیں گے۔
اس بارے میں رہنمائی فرما دیں، کیا یہ چیز بھی رشوت کے لین دین میں آتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
کسی کا حق مارنے یا دبانے کے لیے پیسے دینے کو رشوت کہا جاتا ہے، اور یہ ناجائز اور حرام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
“وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ”. [البقرہ:188]
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا حق مارنے کے لیے رشوت دینا ناجائز اور حرام ہے۔ اپنا حق لینا ہو اور وہ بغیر پیسوں کے نہ ملے، تو پھر پیسے دے کر اپنا حق وصول کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر برتھ سرٹیفکیٹ لینا ہمارا حق ہے، جو بغیر اضافی پیسوں کے نہیں دیتے تو اضافی پیسے دے کر اپنا حق لے سکتے ہیں۔ یہ ان کے حق میں تو گناہ ہے کیونکہ یہ ان کا کام تھا مگر ہمارے لیےگناہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے اپنا حق وصول کیا ہے۔
مثال کے طور پر میرٹ میں سب برابر ہوں پیسے دے کر اوپر آجانا، یا تعلیم میں سب برابر ہوں لیکن پیسے دے کر نوکری حاصل کر لینا، اسکو رشوت کہتے ہیں اور اسی کے بارے میں وعید ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ”. [سنن ابی داود:3580]
’ ’رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔
لہذا صورت مسئولہ میں جو پوچھا گیا ہے، وہ ملازمین اور محکمے کے لیے تو رشوت ہے، لیکن صارفین کے لیے یہ جائز ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان سے باز پرس نہیں ہو گی کیونکہ یہ ان کی بنیادی ضرورت ہے، جس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
“لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا”. [البقرہ:286]
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا‘‘۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ