سوال (3414)
کورٹ میرج کے بعد جو اولاد ہوتی ہے،
کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بچے حلالی نہیں ہیں؟
جواب
اس طرح نہیں کہنا چاہیے، بس اپنا موقف واضح رکھیں کہ حدیث کے مطابق “لا نكاح الا بولي” ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
طلاق کی طرح کورٹ میرج کے حوالے سے مطلقاً فتویٰ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے، میں یہ بات اس لیے کر رہا ہے کہ پہلے یہ تھا کہ قاضی یا جج پیپر ورک کرایا کرتے تھے، لیکن اب ان کا طریقہ کار چئینج ہوا ہے، اب قاضی صاحب نکاح پڑھاتے ہیں، دونوں اطراف سے گواہ ہوتے ہیں، لیکن بنیادی بات یہ آ رہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ “لا نکاح الا بولی”، لیکن پچھلے سات آٹھ ماہ میں میرے سامنے سات آٹھ واقعات آئے ہیں، ان میں ولی کسی بھی صورت میں نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، ایک بچی میری شاگردہ تھی، وہ والدین کو کما کر دیتی تھی، اس کے بھائی اور والد کچھ نہیں کر رہے تھے، والد کسی رشتے پر راضی نہیں تھے، بالآخر بچی نے یونین کونسل اور مسجد کی مولوی سے رابطہ کیا تھا، تو انہوں نے کہا ہے کہ کورٹ میریج کا آپشن ہے، اب ایسی صورت میں کورٹ میرج کے علاؤہ کوئی بھی آپشن ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
اگر ولی ولایت کے لیے نہ رہے تو اس کو معزول ہی کیا جا سکتا ہے، ماضی میں صحابہ کرام اور خلفاء اس طرح کرتے ہیں، جیسا کہ عدالت کرتی ہے، یہ ایک الگ سوال ہو سکتا ہے، اس کا جواب ہو سکتا ہے، جیسا کہ شاہ صاحب حفظہ اللہ نے اوپر فرمایا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ