سوال (5945)

مالک مکان کرایے دار سے طے کرتا ہے کہ آپ 10 تاریخ تک کرایہ دیں گے اگر لیٹ کیا تو 500 روپے ڈیلی اضافی دینا ہوگا، اگر کرایہ دار راضی ہو جائے تو کیا ایسا معاہدہ جائز ہے؟

جواب

جی نہیں پیارے بھائی عمومی طور پر یہ درست نہیں۔ ہاں ایک صورت میں جائز ہو سکتا ہے!
سب سے پہلی صورت تو عموما یہ ہوتی ہے کہ مالک مکان دو ماہ کا کرایہ سیکورٹی کے طور پہ رکھتا ہے تاکہ کرایہ دار گھر کی چیزیں توڑ کر یا بل دئے بغیر بھاگ جائے تو وہ ریکور کیے جا سکیں البتہ شرعی لحاظ سے مالک سیکورٹی کی رقم استعمال نہیں کر سکتا پس جب کرایہ دار اگر کرایہ لیٹ کرتا ہے اور مالک مکان لیٹ کرایہ لینے پہ تیار ہے یعنی اسکو سیکورٹی کا خدشہ نہیں ہے تو پھر دو ماہ تک تو وہ جتنا کرایہ لیٹ ہوتا ہے اتنے پیسے وہ سیکورٹی کے پیسوں سے استعمال کرسکتا ہے تو پھر دو ماہ تک تو اضافی پیسے ویسے بھی لینے کا حقدار نہیں ہے اور عموما دو ماہ سے زیادہ کوئی لیٹ نہیں کرتا۔
دوسری صورت تب ہو سکتی ہے جب کوئی دو ماہ سے زیادہ لیٹ کرتا ہو یا پھر جس نے سیکورٹی ہی نہ جمع کروائی ہو تو پھر بھی اضافی پیسے لینا درست نہیں (سوائے ایک خاص صورت میں) دونوں کی وجوہات کے۔
دیکھیں مالک مکان یہ جرمانہ مندرجہ ذیل دو بڑی وجوہات کی وجہ سے رکھتا ہے۔
پہلی وجہ کہ مالک مکان یہ سوچتا ہے کہ اگر یہ لیٹ کرے گا تو کم از کم میں اپنے پیسوں پہ ہرجانہ یعنی سود تو کما لوں تو یہ واضح حرام ہے۔
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مالک مکان سمجھتا ہے کہ میں لیٹ کرنے پہ سود تو بالکل حرام سمجھتا ہوں نہ لینا چاہتا ہوں لیکن یہ کرایہ دار جان بوجھ کر لیٹ کرتا ہے پس اگر جرمانہ رکھوں گا تو کم از کم جان بوجھ کر لیٹ نہیں کرے گا تو یہ صورت ایک شرط کے ساتھ جائز ہو سکتی ہے کہ مالک مکان یہ وعدہ کرے کہ میرا مقصد سود کمانا نہیں پس میں یہ پیسے استعمال نہیں کروں گا بلکہ فی سبیل اللہ کہیں دے دوں گا کیونکہ مقصد کرایہ دار کو جان بوجھ کر لیٹ کرنے سے روکنا ہے۔
اگر یہ شرط وہ پوری نہیں کرتا تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اسکا مقصد کرایہ دار کو جان بوجھ کر لیٹ کرنے سے روکنا نہیں بلکہ سود کمانا ہے جو درست نہیں۔
اور اگر پھر بھی وہ بضد ہے کہ نہیں میں جرمانہ خود ہی استعمال کرنا چاہتا ہوں تو اسکو پھر بخاری کی نعمان بن بشیر ؓ والی وہ روایت یاد رکھنی چاہئے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن کچھ ان کے درمیان متشابہ کام ہیں پس جس نے اپنے آپ کو ان متشابہ کاموں سے بچا لیا تو اسنے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا (بخاری) پس اس روایت کے تحت بھی چونکہ یہ کام سود سے متشابہ تو کم از کم ضرور ہی ہے پس اس کو یہ جرمانہ نہیں لینا چاہئے یا خود نہیں رکھنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ