سوال (4270)

کرپٹو کرنسی اور اس کی دیگر صورتیں فوریکس ٹریڈنگ، فیوچر ٹریڈنگ اور سیونگ ٹریڈنگ کیا یہ جائز ہیں؟

جواب

کرنسی ٹریڈنگ (Currency Trading) یا فاریکس ٹریڈنگ (Foreign Exchange Trading) ایک جدید مالی معاملہ ہے جس میں مختلف ممالک کی کرنسیوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اس کے متعدد طریقے ہو سکتے ہیں، جن میں سے بعض جائز اور بعض ناجائز ہیں۔ اس معاملے پر کتاب و سنت اور فقہاء کے اقوال کی روشنی میں درج ذیل تفصیل دی جاتی ہے:
1.دستی یا نقد کرنسی کی فوری خرید و فروخت (Spot Trading):
یعنی ایک کرنسی کے بدلے دوسری کرنسی کی خرید و فروخت فوراً (یعنی مجلسِ عقد میں) کی جائے، اور دونوں پارٹیاں نقد (کیس یا بینک اکاؤنٹ ٹرانسفر کی صورت میں فوری طور پر) رقم کا تبادلہ کر لیں۔ یہ جائز ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.

“الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ… مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ”(مسلم 1587)

سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے… برابر ہو اور ہاتھوں ہاتھ ہو۔
کرنسی چونکہ آج کے دور میں ثمن (قیمت) کے طور پر استعمال ہوتی ہے، لہٰذا اس پر رِبا کے احکام لاگو ہوں گے۔ اور اگر مختلف کرنسیاں ہوں تو کمی بیشی جائز ہے، مگر ہاتھوں ہاتھ لین دین شرط ہے۔
2.مؤخر (Deferred) کرنسی ٹریڈنگ:
یعنی ایک کرنسی دی جاتی ہے اور دوسری کرنسی کچھ وقت کے بعد ملتی ہے (مثلاً دو دن بعد)۔ یہ حرام ہے یہ “ربا النسیئہ” کے زمرے میں آتا ہے جو کہ سختی سے حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا:

“فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدًا بيدٍ” (مسلم: 1587)

جب اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو، بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔
3.فاریکس ٹریڈنگ (Online Forex) – بغیر قبضہ کے لین دین:
انٹرنیٹ پر صرف اکاؤنٹ کے اعداد و شمار (numbers) میں تبادلہ ہوتا ہے، اصل کرنسی نہ قبضہ میں آتی ہے اور نہ حقیقی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ یہ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں حقیقی قبضہ نہیں ہوتا۔سود، قمار، اور غرر جیسے ناجائز عناصر پائے جاتے ہیں۔اکثر اوقات صرف Speculation (قیاس آرائی) ہوتی ہے، جو جوئے کے مشابہ ہے۔
4.مارجن ٹریڈنگ (Margin Trading):
بروکر آپ کو قرض دیتا ہے، جس سے آپ بڑی رقم کی کرنسی خریدتے ہیں، لیکن سودی بنیاد پر یا اضافی رقم واپس دینی ہوتی ہے۔ یہ بھی حرام ہے کیونکہ سود پر قرض لینا (وهو ربا)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:

“كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَهُوَ رِبًا” (بیہقی، شعب الایمان: 10489)

ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل ہو، وہ سود ہے۔
5.کرنسی فیوچر کنٹریکٹس (Currency Futures):
معاہدہ ہوتا ہے کہ آج ریٹ فکس کرکے کسی مستقبل کی تاریخ پر کرنسی دی جائے گی۔ یہ بھی ناجائز ہے کیونکہ نہ قبضہ ہوتا ہے، نہ ہاتھوں ہاتھ معاملہ۔ غَرَر (uncertainty) اور قمار پایا جاتا ہے۔
خلاصہ:کرنسی ٹریڈنگ اس وقت جائز ہے جب:
مختلف کرنسیاں ہوں،
لین دین ہاتھوں ہاتھ (immediate exchange) ہو،
اور کسی بھی سود یا شرط سے پاک ہو۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم، ایک وضاحت فرما دیں ، دوسری قسم کے تحت اگر ایک شخص دوسرے سے ایک ہزار ریال ادھار لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج ریال کی جو روپوں میں قیمت ہے میں اس کے برابر روپے تمہیں ایک مدت کے بعد لوٹا دوں گا تو کیا یہ ناجائز ہے؟
جواب: آپ نے جو مسئلہ ذکر کیا ہے وہ موجودہ کرنسیوں کی خرید و فروخت اور قرض میں ان کا تبادلہ کرنے سے متعلق ہے، اور یہ صرفی مسائل (currency exchange issues) کے تحت آتا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہیں:
ایک شخص دوسرے سے 1000 ریال (Saudi Riyal) قرض لیتا ہے، اور کہتا ہے: “آج ریال کی جو قیمت روپے میں ہے، میں وہی روپے مدت کے بعد تمہیں واپس کروں گا۔” یہ ناجائز ہے، اور اس میں ربا (سود) کا اندیشہ ہے۔ اس کی وجہ درج ذیل ہے:
قرض کا اصول: مثل بمثل
جب قرض لیا جاتا ہے، تو واپس وہی چیز دینی ہوتی ہے جو لی گئی ہو۔ یعنی اگر ریال لیا گیا ہو، تو واپس ریال دینا ہوگا۔ اگر روپے لیے گئے ہوں، تو واپس روپے دینا ہوں گے۔
ادھار میں کرنسی کا تبادلہ ناجائز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ… مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ” (صحیح مسلم)

یعنی: “سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے… برابر برابر، ہاتھوں ہاتھ۔”
کرنسی چونکہ سونا چاندی کے حکم میں ہے، لہٰذا اگر مختلف کرنسیاں (مثلاً ریال اور روپے) ایک دوسرے کے بدلے لی جائیں، تو نقد (ہاتھوں ہاتھ) تبادلہ ضروری ہے۔ ادھار جائز نہیں۔
مستقبل کی شرح تبادلہ (exchange rate) غیر یقینی ہوتی ہے جب کوئی کہتا ہے کہ “آج کے ریٹ کے مطابق بعد میں روپے دوں گا”، تو وہ کسی چیز کا تعین نہیں کر رہا، بلکہ ایک غیر یقینی اور مجہول معاملے میں داخل ہو رہا ہے، جو کہ غرر (uncertainty) ہے، اور شرعاً ناجائز ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کو ریال میں ضرورت ہے، اور دوسرا صرف روپے دے سکتا ہے، تو پہلے ریال کی خرید و فروخت کریں (ریال خریدے جائیں روپے دے کر) نقد طور پر۔
پھر اگر وہی شخص روپے قرض دیتا ہے، تو رقم واضح ہو اور واپس روپے ہی لوٹے جائیں۔ یا اگر ریال ہی قرض لیا گیا ہو، تو ریال میں ہی واپس کرنا ہوگا، نہ کہ روپے میں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سائل: تھوڑی سی مزید وضاحت فرما دیں، اگر کوئی شخص یہاں پاکستان سے عمرہ یا کسی کام سے گیا ہو اور وہاں پر اسے ایمرجنسی ضرورت پیش آتی ہے رقم کی ریال کی صورت میں تو کسی کے ذریعے یا پھر ذاتی سورسز کے 1000 ریال لیتا ہے یا کوئی لے کر دیتا ہے، موجودہ وقت جو ریال کا ریٹ ہے اسی کے مطابق پاکستانی رقم طے پاتی ہے، ادا کرنی ہے، لیکن جب واپس پاکستان آتا ہے تب اس کا کیا حکم ہے۔
نوٹ: اگر اس وقت رقم ہوتی تو ریال میں چینج کروا لیتا ہے، سفر کی مجبوری کی وجہ سے ریال لے کر دینے پڑے کسی دوست کو موجودہ ریٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ پر جو رقم ہزار ریال کی بنتی تھی چند روز میں واپسی پر ادا کر دی گئی۔
جواب: اس حوالے سے میری ذاتی رائے پر عمومی طور پر کچھ ساتھی علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن میں وضاحت کر دیتا ہوں۔
ایک شخص سعودی عرب میں ہے اور اسے وہاں ریال کی ضرورت ہے (مثلاً 1000 ریال)۔ کسی دوست یا رشتہ دار نے پاکستان سے اس کے لیے کسی ذریعے سے 1000 ریال کا بندوبست کیا، اور ریال فراہم کر دیے۔ اسی وقت دونوں نے طے کیا کہ ریال کے موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق جو پاکستانی روپے بنتے ہیں، واپسی پر وہی روپے ادا کر دیے جائیں گے۔چند دن بعد پاکستان واپسی پر وہ روپے دے دیے گئے۔
یہ معاملہ درست اور جائز ہے، بشرطیکہ چند شرائط کا خیال رکھا گیا ہو، جن کی وضاحت نیچے کی جا رہی ہے: معاملہ قرض کا ہے یا صرف (Exchange) کا؟
یہ اصل میں قرض کا معاملہ ہے، کیونکہ آپ نے کسی سے مال لیا اور واپسی کا وعدہ کیا۔ قرض ایک کرنسی میں، واپسی دوسری کرنسی میں؟
یہاں ریال قرض میں دیے گئے، اور آپ نے روپے واپس کیے۔ ایسا معاملہ جائز ہے اگر یہ شرط پہلے سے طے کر لی جائے کہ “آپ کو ریال دیے جا رہے ہیں، اور اس وقت جو ان کی قیمت روپے میں ہے، آپ وہی رقم پاکستان آ کر ادا کر دیں گے۔” اور اگر وہ روپے کی مقدار اسی وقت واضح طور پر طے ہو جائے، تو واپسی میں روپے دینا جائز ہے۔
آپ نے سعودی عرب میں دوست سے 1000 ریال لیے۔اگر یہ رقم اسی وقت طے ہو گئی اور واضح طور پر متعین ہو گئی، تو پھر پاکستان آ کر روپے کی صورت میں ادائیگی بالکل جائز ہے، کیونکہ یہ قرض ہے، ربا نہیں قیمت اور مقدار واضح ہے غرر (uncertainty) نہیں ہے ادھار صرفی معاملہ نہیں ہے، کیونکہ صرف (کرنسی ایکسچینج) کا معاملہ تب ہوتا جب فوری تبادلہ ہوتا، یہاں تو معاملہ قرض کا ہے۔
اگر پہلے سے روپے کی مقدار طے ہو گئی تھی (مثلاً 75000 روپے)، تو بعد میں ریٹ بدلنے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپ کو اتنی ہی رقم دینی ہو گی جو پہلے طے کی گئی تھی۔ اگر پہلے رقم طے نہیں ہوئی تھی، صرف یہ کہا گیا تھا کہ “واپس آ کر ریال کے حساب سے روپے دے دوں گا”، تو یہ ناجائز اور غرر والا معاملہ ہو گا، کیونکہ واپسی پر کوئی بھی ریٹ لگایا جا سکتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
اس مسئلہ پر باقی مشائخ کی رائے بھی لے لیں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ