سوال (2430)
ایک خاتون ایک آدمی پر الزام لگاتی ہے کہ یہ آدمی میرے گھر میں کود کر داخل ہوا ہے اور گھر پر حملہ کیا گھر میں دیواریں کود کر گھر کی 2 خواتین کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا لاتوں مکوں سے مارا پیٹا اور گھر سے ہم سب کو بھگا دیا اور گھر کی الماری سے زیورات اور نقدی کیش بھی اٹھا کر لے گیا ہے، جبکہ آدمی کا کہنا ہے کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا نہ میں خاتون کو جانتا ہوں نہ ہی اس کے گھر کا مجھے علم ہے نہ ہی کسی کے گھر میں دیواریں پھلانگ کر کسی خاتون کو بالوں سے پکڑ کر لاتوں، مکوں سے مارا پیٹا ہے اور نہ ہی کسی کے گھر سے زیورات اور نقدی کیش چوری کی ہے۔
درخواست ہے کہ مہربانی فرما کر دین اسلام کی روشنی میں اس کا شرعی حل کیا ہے جواب عنایت فرمائیں؟
جواب
اس میں یہ ہے کہ عورت اگر الزام لگا رہی ہے تو گواہ پیش کرے، اگر عورت گواہ پیش نہیں کرسکتی ہے تو جس پر الزام لگایا گیا ہے، وہ قسم اٹھا کر بری ہو جائے گا کہ میں اس مسئلے میں ملوث نہیں ہوں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث واضح ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا:
“الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ” [سنن الترمذي: 1341]
«گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے»
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ
سائل:
خاتون اگر الزام لگانے میں جھوٹی ثابت ہو؟ یا اگر آدمی کا جرم ثابت ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ دونوں میں سے جو سچا ہو کیا وہ دوسرے کو معاف کر کے معاملہ ختم کر سکتا ہے اسکا طریقہ کار کیا ہے؟
جواب:
اگرچہ ہمارے پاس سزاؤں اور حدود کے اعتبار کوئی اسلامی نظام نہیں ہے، لیکن اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ عدالت یا پنچائیت بیٹھنے سے پہلے معافی تلافی ہو جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ