کچھ یادیں کچھ باتیں

آہ! استاذ العلماء والقرا عبد الحمید خاکی طيب الله ثراكم وجعل الجنة مثواكم

آپ رحمہ اللہ عابد ، زاہد ، متواضع ، ملنسار ، علم دوست، کہنہ مشق، مستقل مزاج، مہمان نواز، سادہ مزاج، تہجد گزار، عالم ربانی اور حافظ قرآن و حدیث تھے..
حد درجہ محنتی، جفاکش اور جانفشاں انساں تھے جس کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جس نے آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارا یا آپ سے شرف تلمذ حاصل کیا. آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر آپ کے تلامذہ لکھ رہے ہیں… اس تحریر میں آپ کی بعض تدریسی خدمات، آپ کی علم دوستی اور دیگر کچھ یادوں کو سپرد قلم کیا جارہا ہے…

استاد محترم رحمہ اللہ (سے جو لوگ ناواقف ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ آپ) ضریر البصر (نابینا) ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں ٹانگوں سے معذور بھی تھے، بچپن میں اسکول کی دوسری کلاس میں سخت بخار ہوا جس سے ٹانگوں میں کمزوری پیدا ہوئی اور بینائی بھی جاتی رہی… اپنے رب کی مشیت ہر راضی اور انتہائی صابر و شاکر رہے اور اپنی معذوری کو کبھی مجبوری ظاہر نہیں کیا، پہلے تو پوری جدوجہد اور سعی بلیغ سے علوم وحی کو آپ نے اپنے سینے میں جمع کیا، گوجرانوالہ چوک نیائی مدرسہ میں داخلہ لینے گئے تو معذوری کی وجہ سے داخلہ نہیں مل رہا تھا… منت سماجت کے بعد داخلہ ملا… پہلا سال مکمل ہوا… سالانہ امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی تو ادارے کی انتظامیہ نے آپ پر نظر کرم کی… آپ کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی…. پھر آپ مسلسل ہر سال پہلی پوزیشن لیتے رہے… آخری سال میں دوسری پوزیشن لی… کیونکہ تب آپ صحیح بخاری حفظ کر رہے تھے… جب کہ اس سے قبل بلوغ المرام اور مشکوۃ المصابيح حفظ کر چکے تھے…. اور فرمایا کرتے تھے کہ میں زمانہ طالب علمی میں احادیث کا مراجعہ اس طرح کیا کرتا تھا جیسے قرآن کی منزل کو دوہراتا ہوں….مزید برآں کہ آپ رحمہ اللہ نے اس دور کے کبار قراء کرام سے علم قراءات اور اپنے وقت کے بڑے بڑے محدثین سے علوم حدیثیہ سیکھے، علمی پیاس بجھانے کے لئے سفری صعوبتیں برداشت کیں، کئی حادثات بھی پیش آئے، اس دورانیے میں جسمانی معذوری کبھی آپ کے جذبات کو سرد نہیں کر سکی.
آپ رحمہ اللہ بحیثیت معلم تجوید ستیانہ بنگلہ فیصل آباد تشریف لائے…استاد گرامی بقیۃ السلف عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ (مدیر المرکز) کے زیر سایہ انتہائی عرق ریزی سے طلبہ کو علم تجوید پڑھانے لگے… اپنی تدریسی صلاحیتوں کا لوہا منوایا… یہاں تک کہ کچھ ہی عرصے بعد آپ کو ستیانہ جیسی عظیم درسگاہ کے شعبہ کتب کے لیے منتخب کر لیا گیا، حضرت الاستاذ شیخ الحدیث والتفسير عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ اور نمونہ سلف حضرت شیخ عبد الشکور اثری رحمہ اللہ جیسے مشایخ اور کہنہ مشق اساتذہ کے ساتھ مل کر تدریس کرنے کا آپ کو موقع ملا…..جن کی رفاقت کا آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا، تدریسی پیچیدگیوں میں اپنے ہم عصر اساتذہ سے معاونت لینے میں کبھی عار محسوس نہیں کی….یہاں تک کہ علمی پیاس بجھانے کے لیے اپنے سے کم عمر مشایخ بلکہ اپنے بعض تلامذہ کی طرف بھی رجوع کر لیتے… یہی ایک صاحب علم کی شان ہونی چاہیے.. جیسا کہ سلف کا قول ہے : (لا ينبُل الرجل حتى يأخذ العلم عمّن هو فوقه، وعمّن هو مثله، وعمّن هو دونه).
آپ رحمہ اللہ سے مجھے دیگر بعض کتب فنون کے علاوہ مکمل قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے… ادارے کے مقررہ نصاب کے اعتبار سے ترجمہ و تفسیر قرآن چار سالوں میں تقسیم ہے… تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا (اور کہہ لیجیے ہماری خوش نصیبی) کہ ہر سال ہمارا ترجمہ قرآن کا سبق استاد محترم خاکی صاحب رحمہ اللہ کے پاس رہا.. چنانچہ ہمیں بہت قریب سے استاد محترم سے استفادے کا موقع ملا، آپ کی علمیت، باریک بینی اور دقت مطالعہ کا خوب ادراک ہوا…. آپ کے مطالعہ کی روداد تو ایک مستقل باب ہے جس پر بالتفصیل لکھنے کی ضرورت ہے… ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کی مختصر سرگزشت درج ذیل ہے :
حضرت استاد گرامی رحمہ اللہ آیات قرآنیہ کی صرفی و نحوی تحلیل کے لیے اردو وعربی کی بہت ساری کتب کی طرف رجوع کرتے، جن میں فن صرف و نحو کی چھوٹی کتب اور کتب لغات کے علاوہ اعراب القرآن للصافي والدرويش کو سر فہرست رکھتے.. اگر کتب سے تشفی نہ ہوتی تو اہل علم کی تسجیلات اور ریکارڈنگ سنتے،… کسی صیغہ یا عبارت کے حل میں مشکل پیش آتی تو ادارے کے ماہر اساتذہ کی طرف طلباء کو بھیجتے…..
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار مجھے کسی صیغہ کی تحلیل کے لیے استاد محترم شبیر صاحب – حفظہ اللہ من كل مكروه وفرج عنه عاجلا بما هو فيه – کی طرف بھیجا… پھر اسی مسئلے میں شیخ الحدیث استاد محترم بشیر صاحب حفظہ اللہ کی طرف بھیجا… دونوں طرف سے جو جواب ملا اس کا موازنہ کیا….یہ ان کے معمول میں شامل تھا.
قرآنی آیات کی صرفی نحوی تحلیل کے ساتھ ساتھ مفردات الألفاظ ومعانی الکلمات کا اہتمام کرتے، متعلقہ کتب کی طرف رجوع کرتے…. کلمات کا لغوی و اصطلاحی ربط خوب دقت کے ساتھ سمجھتے…
بعد ازاں آیات کے اردو ترجمہ کے لیے مختلف تراجم کی طرف رجوع کرتے… جن میں سے چند یہ ہیں:
آسان ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد اور
جونا گڑھی صاحب رحمہ اللہ کا ترجمہ..
عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کا ترجمہ… معانی القرآن از مکتبہ دار السلام…
مفردات القرآن از راغب اصفہانی
پھر ان سب کا باہم موازنہ کرتے… آخر میں طلبہ کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی آسان، عام فہم ترجمہ کرتے… پہلے لغوی پھر سلیس… اس انداز سے طلبہ کے سامنے پیش کرتے کہ انہیں کلاس میں ہی یاد ہو جاتا……
آپ رحمہ اللہ کی تدریسی صلاحیت کو ادارے کے بڑے بڑے اساتذہ بھی سراہتے تھے… سب میدان تدریس میں آپ کی تگ ودو کے معترف تھے… بلکہ دیگر اساتذہ آپ سے استفادہ بھی کیا کرتے….
مجھے یاد ہے ادارے کے سینئر اساتذہ میں سے بعض نے میرے ذمہ لگا رکھا تھا کہ ترجمہ و تفسیر کا جو سبق خاکی صاحب رحمہ اللہ سے آپ پڑھتے ہو وہ میرے اس (بیاض والے) والے مصحف پر درج کر دیا کریں… کچھ عرصہ تک میں یہ ذمہ داری نبھاتا رہا….ولله الحمد
اور متلاشیان علوم قرآن کو یہ سن کر مسرت ہو گی کہ استاد محترم سے پڑھا ہوا چار سالہ ترجمہ تفسیر میرے پاس محفوظ ہے جو اللہ کی توفیق سے دوران کلاس استاد محترم کے ساتھ ساتھ لکھا تھا ولله الحمد والمنة….
اگر توفیق الہی شامل حال رہی تو استاد گرامی رحمہ اللہ کے نام سے اسے شائع کرنے کی دیرینہ خواہش ہے…والله الموفق والمعين… اس کی تکمیل کے لیے 2011 م میں میرے ہمسفر ،،کلاس فیلو ستیانہ سے فاضل ہونے والے احباب سے معاونت لی جا سکتی ہے جو کلاس میں استاد محترم رحمہ اللہ کے ساتھ ساتھ آپ کے درر و فوائد کو قلمبند کیا کرتے تھے جن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
ان میں سر فہرست:
ہمارے عزیز دوست قاری شعیب بہاولپوری (حالیہ لائبریرین گورنمنٹ ہائی سکول بہاولپور) جنہیں تقریبا عرصہ دس سال تک استاد محترم کی رفاقت نصیب رہی… جنہوں نے شب و روز استاد محترم کے ساتھ گزارے… استاد محترم کے متعلق بہت سے اشیا ہمیں ان کے توسط سے ملیں. بارک اللہ فیہ
اسی طرح ہماری کلاس کے دیگر احباب بھی استاد گرامی رحمہ اللہ کے تفسیری فوائد سپرد قلم کرتے رہے جن میں: المقرئ قاری شفیق الرحمن چنیوٹی (سینیر مدرس ادراہ منڈی بہاؤ الدین)، شیخ شمعون راشد (سینئر مدرس الفرقان کالج) کے علاوہ بھی کلاس کے بہت سے احباب ان فوائد کو نوٹ کیا کرتے تھے ان سب کا نام ذکر کرنا یہاں صعب ہے……بوقت ضرورت اس پروجیکٹ کے لیے کلاس 2011 کے فاضلین سے معاونت لی جا سکتی ہے…
استاذ گرامی رحمہ اللہ ترجمہ کے بعد تفسیر و احکام کے لیے اردو + عربی کی بہت سی کتب اور کئی مراجع کو زیر مطالعہ رکھتے تھے… جن سب کا ذکر شاید طوالت کا باعث ہو گا… ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
1:تفسير ابن كثير
2: تفسير جلالين
3:تيسر القرآن للكيلاني
4: تفسير دعوة القرآن
5:أشرف الحواشي
6: أحسن البيان
7: التفسیر المنیر
8: اعراب القرآن لدرویش
9: اعراب القرآن لصافی
10: تفسیر القرآن
11: احسن البیان
از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ
ان کے علاوہ آپ کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب کی فہرست طویل ہے، بیس، بائیس مراجع تو وہ تھے جن سے مسلسل آپ استفادہ کرتے رہتے…. ان کے علاوہ حسب ضرورت لائبریری سے کتب منگوا لیتے… پھر انہیں واپس کر دیتے…

تفسیری مطالعہ کا طریقہ کار یہ تھا…بیک وقت دو تین طلبہ کو مختلف مراجع دے کر اپنے پاس بٹھا لیتے… سب سے باری باری سماعت کرتے…. آخر میں تصدیق کے لیے سماعت کیا ہوا سب کو سناتے پھر ان معلومات کا موازنہ اور تقابل کرتے… آخر میں حضرت شیخ چھتوی رحمہ اللہ کے دورہ تفسیر کی ریکارڈنگ سنتے… کسی اشکال کی صورت میں ادارے کے بڑے اساتذہ کی جانب طلبہ کو بھیجتے… اور کئی بار بذات خود اپنی لاغری و معذوری کے باوجود حضرت عبد الشکور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اشکالات کا حل طلب کرتے….اگر شاہ صاحب فرما دیتے کہ آپ نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تو فرماتے… کہ میں علم کا متلاشی اور حاجت مند ہوں… مجھے خود ہی حاضر ہونا چاہیے…. اس قدر محنت کے بعد اپنے طلبہ کے لیے سبق تیار کرتے…..الله أكبر…. رحمك الله شيخنا وغفر لك….

اساتذہ کرام کے پاس یا ادارے میں آنے والے مجلات کا پابندی کے ساتھ مطالعہ ان سب کے علاوہ ہے… جن کی تفصیلات کافی طویل ہیں، الگ سے ان پر لکھنے کی ضرورت ہے، قرآن کی منزل سنانے کی داستان کچھ الگ سی ہے،
اسی طرح آپ کے مطالعہ کی دقیق سرگزشت مستقل ایک باب ہے جو بالتفصیل سپرد قلم و قرطاس کا محتاج ہے…جس سے طلبہ علوم وحی بہت سے فوائد اور درر حاصل کر سکتے ہیں…
جب سے آپ کی وفات کی خبر ملی ہے دل ودماغ پر آپ کی یادوں نےپہرہ جما رکھا ہے، سینہ آپ کی زندگی کے سنہری نقوش سے لبریز ہے، لکھتے لکھتے افسردگی سی چھا جاتی ہے، سوچ و فکر کے بحر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے کتنی عظیم شخصیت کو کھو دیا، ایک زیرق، مربی و محسن، مشفق معلم اور جلیل القدر استاد سے محروم ہو گئے، اور نمونہ سلف، بقیۃ السلف جیسے القاب کے حقدار ہمیں داغ مفارقت دے چکے … آہ استاد گرامی!
(آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے)

فإنا لله وإنا إليه راجعون ولا نقول إلا ما يرضي ربنا… اللهم أكرم نزله واغفر له وارحمه….

آپ کی صبر و استقامت، تقوی و للہیت، عاجزی و انکساری، فنا فی سبیل اللہ سے بھر پور زندگی کے سنہرے ایام جب دل و دماغ میں گردش کرتے ہیں تو ایک قرار سا مل جاتا ہے، دل کو کچھ تسلی ملنے لگتی ہے ، یقین سا ہونے لگتا ہے کہ رب کائنات نے استاد گرامی کی خوب مہمان نوازی کی ہو گی، صادق و مصدوق، رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان نبوت سے نکلے وعدے کے مطابق اللہ نے جنتوں کا مہمان بنا دیا ہو گا… جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

( إنَّ اللَّه تعالى قَالَ:”إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبدِي بحبيبتَيْهِ فَصبَرَ عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الْجنَّةَ) يُريدُ عينيْه، (البخاريّ).

اور دعائیں بھی ہیں… اللہ اپنے بندے کی بشری لغزشیں معاف کر دے، آپ کی خطاؤں سے در گزر کرے، آپ کے درجات بلند فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عطا کرے، جنات خلد کا حقدرا بنادے.

آپ کی سوانح کے بہت سے پہلو ابھی تشنہ ہیں ، توفیق الہی سے آئندہ جن پر کچھ لکھنے کی کوشش ہو گی ان شاء الله
مثلا:
علوم وحی سے آپ کی لگن
آپ کی پابندی وقت
نیکی تقوی اور زہد و ورع
صبر و استقامت
آپ کی قیمتی نصیحتیں اور وصیتیں
سفر آخرت کی تیاری
اور آخر میں (آپ کی پیش گوئی اور مدینہ یونیورسٹی میں میرا داخلہ)
پیش گوئی سے مراد الہام یا خواب…

اگر آپ کی حیات مستعار پر ایک مستقل نمبر شائع ہو جائے تو بہت خوب ہو گا… وبالله التوفيق وبه نستعين.

کچھ یادیں کچھ باتیں(حصہ دوم)

استاد گرامی رحمہ اللہ جس طرح تعلیم و تعلم کے لیے جد وجہد کرتے اس سے کہیں بڑھ کر عبادت و ریاضت میں تگ و دو کرتے، صوم و صلاۃ کی پابندی، صدقہ و خیرات پر ہمشیگی، ذکر و اذکار پر دوام آپ کے نمایاں اوصاف میں شامل ہیں، بالخصوص نماز کے لیے اہتمام تو دیدنی تھا، وقت سے پہلے ہی امورِ طہارت سے فارغ ہو کر نماز کا انتظار کرتے، معذوری و لاغری کے باوجود تکبیر اولی اور باجماعت نماز کے لیے مسجد پہنچتے، کئی مرتبہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ نماز کے لیے گزرتے ہوئے ہاسٹل میں موجود طلبہ کو آواز دے کر انہیں نماز کے لیے بروقت مسجد جانے کا کہتے،،،،، شاید اس لگی ہوئی لگن اور تعلق باللہ ہی کی وجہ سے اللہ رب العزت نے چہرے کے ساتھ آپ کا دل بھی روشن کر دیا تھا، اور آپ کے سینے کو نور وحی کا خزینہ بنا دیا تھا، کیوں کہ عاصی دل نورِ وحی کی آماجگاہ نہیں بن سکتا،،،جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب بعض ابیات ہیں جن میں وہ اپنے استاد کے سامنے سوء حفظ کا شکوہ کر رہے ہیں:

شَكَوتُ إِلى وَكيعٍ سوءَ حِفظي
فَأَرشَدَني إِلى تَركِ المَعاصي
وَأَخبَرَني بِأَنَّ العِلمَ نورٌ
وَنورُ اللَهِ لا يُهدى لِعاصي

چنانچہ للہیت، تقوی شعاری، پرہیز گاری، اور خشیت الہی حصول علم کی اولین شرطوں میں سے ہیں. ارشاد باری ہے: “واتقوا الله ويعلمكم الله”…
آپ رحمہ اللہ کی تقوی شعاری آپ کے لیل و نہار کے شیڈول سے نمایاں ہے جس پر بالتفصیل لکھنے کو وقت درکار ہے…بطور مثال آپ کی تدریسی خدمات انجام دینے کی داستان ہی کافی ہے،،،، یوں لگتا ہے کہ رب کائنات نے آپ کو علوم شرعیہ کی خدمت کے لیے چن لیا ہو، علوم وحی کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ کو قبول کر لیا ہو،،، تدریسی فریضہ کو پورے اخلاص کے ساتھ نبھاتے،،،، آپ اپنے طلبہ کا وقت بالکل بھی ضائع نہ کرتے….اور نہ ہی طلبہ سے ضیاع وقت کو برداشت کرتے… پہلے تو پوری دُھن، محنت، لگن اور تندہی سے رات گئے تک دروس تیار کرتے، (جس کی تفصیل گزشتہ قسط میں گزر چکی ہے) پھر علی الصبح، بعد از نماز فجر اس کا استحضار کرتے، بروقت کلاس روم پہنچتے، سبق سے ناغہ تو درکنار شاید ہی کبھی کلاس میں تاخیر سے بھی پہنچنے ہوں، وقت کی پابندی تو آپ کا شعار تھا، اپنے معاملات کے لیے پیشگی منصوبہ بندی اور تنظیم سازی آپ کا امتیازی وصف تھا، ترجمہ، تفسیر اور حدیث جیسے بڑے مضامین کی بروقت تکمیل نہ ہونے پر کئی مدرسین شکوہ کناں نظر آتے ہیں.. پھر ان مضامین کی تکمیل کے لیے وہ اضافی وقت بھی صرف کرتے ہیں… جبکہ ہمارے ممدوح استاد گرامی رحمہ اللہ ایسے مضامین کو نا صرف بحسن و خوبی وقت سے پہلے مکمل کرلیتے، بلکہ کلاس کے دورانیہ میں اس کی دوہرائی اور مراجعہ بھی کروا دیتے،…
آپ کا طریقہ کار یہ تھا: کلاس شروع ہوتے ہی طلبہ سے گزشتہ سبق سنتے، پھر نیا سبق پڑھاتے، اس قدر انہماک سے پڑھاتے کہ بسا اوقات آیات قرآنیہ کی تفسیر بیان کرتے آپ کے چہرے کے تیور بدل جاتے، رقت و خشیت کی کیفیت طاری ہو جاتی، رحمه الله رحمة واسعة.
پھر محاضرے کے آخر میں شروع کتاب سے بالترتیب کچھ صفحات کا مراجعہ بھی کراتے ،آخر میں طلبہ کو سوالات کرنے کا موقع بھی دیتے، طلبہ کی حاضری، نگرانی اور دیگر معاملات کی خبر گیری ان سب کے علاوہ ہے.. اور یہ سب کچھ پیریڈ ٹائم یعنی پینتالیس (45) سے پچاس (50) منٹ کے دورانیے میں ہی کرتے… الله أكبر… آپ کے وقت میں اللہ نے کیا برکات رکھی تھیں…. احکام والی آیات کی لمبی لمبی بحوث کو رءوس الأقلام، جامع مانع الفاظ اور بہترین اسلوب میں پیش کرتے، پھر مراجعہ کے وقت اسی طرح ہی طلبہ سے سنتے، اردو کے الفاظ چن چن کر لاتے، پھر طلبہ کو ان کا التزام کرنے کو کہتے، ان الفاظ کے علاوہ دیگر الفاظ طلباء سے قبول نہ کرتے، اور ایسا وہ ہی استاد کر سکتا ہے جس نے پہلے عرق ریزی سے درس کے الفاظ و جمل تک کا چناؤ کیا ہو، الله أكبر…….
ایسے اوصاف صرف اسی مدرس میں ہو سکتے ہیں جو فرض شناس ہو، جس کا باطن نعمت اخلاص سے لبریز اور دل خوف الہی سے معمور ہو…. اللهم لا تحرم شيخنا من الأجر.
آپ رحمہ اللہ کو معلومات کا اس قدر استحضار رہتا، مجھے اچھی طرح یاد ہے سنہ 2008م کی بات ہے ایک بار دوران کلاس ایک دوسرے شیخ آگئے، بطور امتحان طلبہ سے کچھ سوالات کرنے لگے جب استاد محترم رحمہ اللہ ہمیں سورہ انعام کا آخری رکوع پڑھا رہے تھے، آپ رحمہ اللہ سبق روک کر (آنے والےشیخ سے) گویا ہوئے کہ: آپ اپنی تشفی کے لیے طلبہ کو چھوڑیئے، میرا امتحان لیجیے، میں تیار ہوں، پوچھیے کیا پوچھنا ہے؟
سبحان اللہ! کیا عظیم شخصیت تھے ہمارے شیخ، مختصر زندگی کی مختصر علالت کے بعد ہی خالق کائنات نے انہیں واپس اپنے پاس بلا لیا….
آہ! رحمك الله المنان شيخنا! ورفع مقامك في الجنان

آپ کے زہد و ورع کا عالم یہ تھا کہ اپنی حیات مستعار کو دنیوی آسائشوں سے کوسوں دور رکھا، زیب تن کے لیے لباس کے دو جوڑے سے زیادہ کبھی کپڑے نہیں رکھے، مگر نفاست اتنی کہ کبھی کسی کو محسوس تک نہیں ہونے دیا، ادارے کی طرف سے ملنے والی تنخواہ کے مصارف جان کر عقل ششدر و حیران رہ جاتی ہے، یہ بات تو کسی پر مخفی نہیں ہے کہ عموماً مدارس میں اپنی عمریں کھپانے والے دین کے ان پاسبانوں کی تنخواہیں معمولی ہی ہوتی ہیں، مگر رب کائنات نے انہیں استغناء سے مالا مال کر رکھا ہوتا ہے، برکات انہیں اپنے گھیرے میں لیے رکھتی ہیں، انہیں میں سے ہمارے موصوف استاد گرامی بھی ہیں ذرا ان کی معمولی سی تنخواہ کے مصارف ملاحظہ کیجیے:
– اس میں سے اپنی ضروریات پوری کرتے، کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے.
– تنخواہ کا کچھ حصہ اسی ادارے کے لیے بطور فنڈ اور توشئہ آخرت کے جمع کرا دیتے، اپنے خادم کو تاکید کرتے کہ چپکے سے مدیر المرکز (مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب) کو یہ مبلغ دے کر عبد اللہ یا عبد الرحمن جیسے کسی فرضی نام کی رسید لے لینا… آج تک شاید مدیر صاحب بھی نہیں جان سکے ہوں گے کہ یہ عبد اللہ و عبد الرحمن کون ہے،،،،، اللہ استاد گرامی کی قبر پر رحمتوں کی برکھا نازل فرمائے…
– اسی معمولی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اپنے غریب طلباء کے لیے بھی مختص کرتے، پھر اپنے خادم خاص قاری شعیب صاحب کو فرماتے کہ خاموشی سے بغیر نام بتائے مستحق طلبہ میں تقسیم کر دیجیے…..
– اسی تنخواہ میں سے کچھ حصہ حج کے لیے جمع کرتے رہے جو بعد ازاں حج بدل کے طور پر مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم اپنے ایک شاگرد کے سپرد کر دیے،،، اس نے بھی آپ کی زندگی میں ہی آپ کی طرف سے حج قران ادا کیا.. ولله الحمد ، وجزاه الله خيرا،،،، جبکہ اس سے قبل استاد محترم ادارے کی طرف سے عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے تھے… الله يتقبل..
– اسی تنخواہ میں سے اپنے بہن بھائیوں کی بھی معاونت کرتے… بالخصوص اپنی مطلقہ بہن کا خیال رکھتے.
– اسی طرح کچھ نہ کچھ بطور تحفہ اپنے خدام طلبہ کو بھی دیتے،،،،،

معمولی تنخواہ میں رب العالمین نے کتنی برکات عطا کر رکھی تھیں.،، مہینے کے آخر میں بڑی بڑی تنخواہوں والے مہنگائی، تنگی معاش وغیرہ وغیرہ کا رونا رو رہے ہوتے ہیں، مگر استاد گرامی کی زبان سے کبھی معاشی تنگی کا شکوہ نہیں سنا…
سبحان من خلقه ورزقه ووفقه وهو ولي التوفيق.
اور توفیق الہی ایک نعمت عظمی ہے، مالک کائنات جسے چاہتا ہے اسے اس نعمت سے نواز دیتا ہے، یوں لگتا ہے کہ استاد محترم کو اللہ سبحانہ نے اس نعمت کا بھی وافر حصہ عطا کر رکھا تھا اسی لیے تو آپ بڑے بڑے کاموں کو کامیابی کے ساتھ وقت سے پہلے ہی نمٹا لیتے، مستقبل کے لمبے لمبے شیڈول بناتے تو سالوں پہلے ہی ان کی تیاری شروع کر دیتے، مجھے یاد ہے کہ: آئندہ سال جو مضامین پڑھانے کا عزم رکھتے، ان کے مصادر و مراجع پہلے ہی سے جمع کر لیتے، چھٹی کے ایام (جمعرات و جمعہ) میں ان کا مطالعہ کرتے، ان کی کلیات و جزئیات کو نظر سے گزارتے اور پیچیدگیوں کو حل کرنے کی کوشش کرتے،،،،… اس طرح اپنے اوقات کو مستقبل میں نفع بخش امور کے لیے صرف کرتے….

تاريخ گواہ ہے جنہوں نے وقت کی قدر کی، اللہ رب العزت نے بھی ان کی قدر کی، انہیں رنگ لگائے، ان کا ذکر خیر باقی رکھا، استاد محترم نے جس طرح اپنی زندگی کے لمحات کو قیمتی بنایا، اپنے وقت کی قدر کی، دور حاضر میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے،
آپ رحمہ اللہ سیکنڈز کی بھی قدر کرتے، ادارے کی گھڑیوں پر کڑی نظر رکھتے… ان میں اگر کچھ سیکنڈ کا بھی فرق آتا تو طلبہ کو بھیج کر انہیں درست کراتے….اذان میں تاخیر کی صورت میں موذنین کی کلاس لیتے…
رحمك الله شيخنا وقد أتعبت من بعدك…

آپ رحمہ اللہ بسا اوقات اپنے طلبہ کو نصیحتیں فرماتے، تقوی الہی سے معمور زندگی گزارنے کی تلقین کرتے، بلا معاوضہ واجرت اور بغیر طمع و لالچ کے تادمِ زیست دین حنیف کی خدمت کا درس دیتے،،،

آپ رحمہ اللہ آخرت کے تیاری کے لیے فکر مند رہتے:
ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد کو پاس بلا کر کہنے لگے کہ مجھے ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھنا اور ساتھ ہی اشارۃ میاں باقر رحمہ اللہ کے بارے میں بتانے لگے کہ انہوں نے بھی اپنے کسی نیک و صالح شاگرد کو اسی طرح کی وصیت کی تھی…
ایک بار جب مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم آپ کے بعض تلامذہ آپ سے ملنے آئے تو ایک شاگرد سے وعدہ لیا کہ جب تک آپ وہاں رہیں، سال میں ایک بار میری طرف سے عمرہ ادا کرنا ہے جس پر آپ کے شاگرد نے حامی بھری.. جزاه الله خيرا،،،،

اگر کوئی طالب علم آپ سے کسی خاص دعا کی گزارش کرتا تو آپ اسے کبھی نہ بھولتے، ہمیشہ اس کے لیے دعائیں کرتے،،،
میں نے سنہ 2010م میں اپنے آخری تعلیمی سال میں مدینہ یونیورسٹی کے لیے اپلائی کیا تو استاد محترم سے دعا کی درخواست کی،،،، پھر ایک عرصہ بیت گیا،،، فراغت کے بعد جب اللہ نے مجھے اسی ادارے میں تدریس کا موقع عنایت فرمایا تو تدریس کے لیے میرے ذمہ جو اسباق لگائے گئے ان میں سے بلوغ المرام کا سبق و درس بھی تھا … یہ تدریسی سال کے پہلے مہینے یعنی ماہ شوال کے آغاز کی بات ہے تو ایک دن استاد محترم رحمہ اللہ مجھے فرمانے لگے کہ عطاء آپ نے تو مدینہ چلے جانا ہے، اور فرمانے لگے کہ وہاں جانے سے پہلے آپ نے مدیر التعلیم سے بات کر کے بلوغ المرام کا پیریڈ مجھے دلوانا ہے،،، یہ تب کی بات ہے جب مدینہ یونیورسٹی کے لیے اپلائی کیے مجھے کم و بیش ایک سال کا عرصہ بیت چکا تھا، ابھی تک داخلے کی کوئی خبر نہ تھی،،، میرے ذہن سے بھی یہ بات شاید اوجھل ہو چکی تھی،،، مگر استاد محترم استاد گرامی سے اللہ راضی ہو وہ تو ایک عرصے سے میرے لیے رب کے حضور جھولیاں پھیلا رہے تھے، التجائیں اور دعائیں کر رہے تھے،،،، گویا جیسے انہیں مدینہ میں میرے داخلے کا یقین ہو گیا تھا،،، اللہ سبحانہ نے بھی قدر دانی کی،،، دعائیں قبول ہوئیں،،، ابھی ماہ شوال مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ استاذ محترم شیخ الحدیث عبد الرشید ضیاء حفظہ اللہ (مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کے توسط سے ڈاکٹر شفقت الرحمن مغل (سابق مترجم مسجد نبوی) نے مجھے مدینہ یونیورسٹی میں قبول ہونے کی نوید سنائی والحمد لله على ذلك والشكر له كله……. وجزى الله شيوخي خير الجزاء.
چنانچہ سنہ2011م سے تاحال مدینہ نبویہ میں ہی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے،،، الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات
اللہ میرے اساتذہ سے راضی ہو، ان میں سے جو وفات پا چکے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور جو حیات ہیں ان کی حفاظتیں فرمائے…
اور

اللہ مجھے، میرے رفقاء اور استاد محترم رحمہ اللہ کے تمام تلامذہ کو آپ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے، تاحیات ہمیں دین حق کے غلبے اور سر بلندی کے لیے مصروف عمل رہنے کی توفیق بخشے…. اور استاد گرامی کو اللہ انبیاء، صدیقین، شہدا و صالحین کی رفاقت نصیب کرے… آمين يارب العالمين.

وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

از عطاء الله بن عبد المجيد
(جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)

یہ بھی پڑھیں: وڈےاستادجی