کفار کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار سے لے کر آج تک ہمیشہ اہلِ اسلام کا عملی اجماع ہے کہ مسلمانوں اور کفار کے قبرستان الگ الگ ہوں گے اور کسی مسلمان میت کو کفار کے قبرستان میں یا کافر میت کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا حرام وناجائز ہے۔
سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
بَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا ثَلَاثًا ثُمَّ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا۔
میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ ﷺ مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ”بیشک یہ لوگ بہت بڑی خیر سے پہلے ہی گزر گئے ( اسلام لانے سے محروم رہے )۔ “ آپ ﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی ، پھر آپ ﷺ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے ، تو فرمایا ”بلاشبہ ان لوگوں نے بہت بڑی خیر پا لی (اسلام سے بہرہ ور ہوئے)۔ “
(سنن ابو داود: 3530 وسندہ صحیح )
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے مسلمانوں کی قبروں کو مشرکین کی قبروں سے الگ کرنا ثابت کیا ہے۔ (المحلی بالآثار : 3/ 368)
اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہل شام کے عیسائیوں سے صلح کی جو شرائط عائد کی تھیں ان میں ایک شرط یہ بھی تھی:
ولا يجاوِرُوا المُسلمينَ بِمَوتاهم۔
“وہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے مردے دفن نہیں کریں گے۔” (المحلى بالآثار : 5/ 415 وغیرہ)
اس روایت سے ابن حزم رحمہ اللہ نے حجت پکڑی ہے۔
اس پر فقہاء کا بھی اتفاق ہے۔
1۔ فقہ حنفی (البناية شرح الهداية للعيني : 3/ 240، بدائع الصنائع للكاساني :1/ 304)
2۔ فقہ مالکی (منح الجليل لعليش : 1/ 124، كفاية الطالب الرباني لأبي الحسن المالكي (2/ 412)
3۔ فقہ شافعی (البيان في مَذهَب الإمام الشافعي للعمراني : 3/ 98، (تحفۃ المحتاج فی شرح المنهاج مع حواشي الشرواني والعبادي : 3/ 171)
4۔ فقہ حنبلی (كشاف القناع للبهوتي : 3/ 129، مطالب أولي النهى للرحيباني :1/ 922)
5۔ علماء ظاہریہ کا بھی یہی موقف ہے۔ (المحلى لابن حزم : 3/ 367)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) ایک مسئلے میں فرماتے ہیں:
کافر کو مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمان کو کافروں کے ساتھ دفن نہیں کیا جاسکتا۔
(مجموع الفتاوی: 24/ 295)
علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“مسلمان کو کفار کے قبرستان یا کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا حرام ہے۔”
(فیض القدير : 1 /297)
علامہ شیرازی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔”
اس پر حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ہمارے فقہاء کا اتفاق ہے کہ نہ تو کسی مسلمان کو کفار کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور نہ کسی جافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں۔”
(المجموع شرح المهذب : 5/ 285)
الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:
اتفق الفقهاء على أنه يحرم دفن مسلم في مقبرة الكفار وعكسه إلا لضرورة.
فقہاء کا اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کو کفار کے قبرستان میں یا کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا حرام ہے۔ الا یہ کہ بہت سخت مجبوری ہو۔
(الموسوعة الفقهية : 21/ 19)
سعودی فتویٰ کمیٹی کے علماء نے بھی فتوی دیا:
“غیر مسلم کو مسلمانوں کے ساتھ ان کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، بلکہ انہیں مسلمانوں سے دور دفن کیا جائے گا۔”
(فتاوی اللجنة الدائمة : 8/ 456)
اسی طرح فرماتے ہیں:
“کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں ہے۔”
(ایضا :9/ 10)
نیز فرماتے ہیں:
“کیونکہ مسلمانوں کے قبرستان کو کفار سے الگ رکھنے اور مسلمان کو مشرک کے ساتھ دفن نہ کرنے پر اہل اسلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور اور اس کے بعد ہمیشہ سے یہ عمل جاری ہے لہذا یہ مسلمانوں کے قبرستان کفار کی قبروں سے الگ رکھنے پر عملی اجماع ہے۔”
(أيضا : 8/ 452 – 453)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ کفار (چاہے وہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں، قادیانی ہوں، ملحد ہوں، غرضیکہ کوئی بھی ہوں) انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ناجائز وحرام ہے اور اس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔
وما توفيقي إلا بالله.
حافظ محمد طاھر