سوال (4712)

کیا بارہ ذو الحجہ کی رمی بعد از فجر کسی مجبوری کی بنا پر کی جا سکتی ہے؟

جواب

مجبوری کوئی بھی نہیں ہوتی ہے، یہ مجبوریاں خود ساختہ ہیں، گذارش یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو، قرآن نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

“فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّه فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّه اَحَدًا” [الكهف: 110]

«پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے»
یاد رہے کہ عمل وہی قبول ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو، گیارہ، بارہ یا گیارہ، بارہ اور تیرہ کو رمی کرنے کا وقت زوال کے بعد سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہے، فجر کے بعد یا ظہر سے پہلے نہیں ہے، مجبوریاں تو ہماری کئی ہو سکتی ہیں، قافلے چھوٹ جائے گا، میں پیچھے ہٹ جاؤں گا وغیرہ، رمی کا وقت جو ہے، اس پر سنت کے مطابق رمی کی جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ