سوال (1936)
بعض لوگ کال کرنے کے لیے بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ایڈوانس لیتے ہیں، جو بعد میں بیلنس کروانے پر اصل ایڈوانس کی رقم سے زیادہ کٹوتی کر لی جاتی ہے تو کیا ایڈوانس لینا درست ہے؟
جواب
یہ کمپنیاں ایڈوانس بطور قرض دیتی ہیں اور مع سود واپس لیتی ہیں، جس کو سروسز چارجز کا نام دیتی ہیں، نام بدلنے سے حکم نہیں بدلتا ہے۔
لہذا یہ سودی معاملہ ہے، اس سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے، نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق سود دینا بھی لعنت والا عمل ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
عموما اس کا یہی جواب دیا جاتا ہے. لیکن اس پر مزید تحقیق کی جا سکتی ہے، جسے ہم “ایڈوانس بیلنس” کہتے ہیں، وہ کیا چیز ہے؟ کیا وہ ہم رقم لیتے ہیں کہ کمپنی جس کی واپسی پر ہم سے سود کا مطالبہ کرتی ہے؟
یا پھر بیلنس پیسوں سے ہٹ کر ایک پراڈکٹ ہے، جو پیسوں کے عوض خریدی جاتی ہے۔
اس دوسری صورت میں پراڈکٹ کی قیمت کمپنی جتنی مرضی رکھ سکتی ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
میرے رجحان کے مطابق تو دونوں صورتوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے، کمپنی کی پراڈکٹ کال کو خریدنے کیلیے ہم رقم جمع کرواتے ہیں جسے بیلنس کا نام دیا جاتا ہے، جب ہمارا بیلنس (رقم) ختم ہو جاتا ہے تو وہ ایڈوانس بیلنس (رقم) ہمیں کمپنی دیتی ہے، جس سے ہماری کال سروس برقرار رہتی ہیں اور جب ہم کال سروس لینے کیلیے اس کمپنی کو اپنی رقم (بیلنس) جمع کرواتے ہیں تو کمپنی پہلے اپنی رقم (بیلنس) مع سروس چارجز کٹوتی کر لیتی ہے اور باقی ہماری جمع شدہ رقم کی ہمیں کال سروس مہیا کرتی ہے۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ کمپنی ہمیں کوئی پراڈکٹ فروخت نہیں کر رہی ہے، بلکہ اپنی کال پراڈکٹ فروخت کرنے کیلیے بطور قرض بیلنس دے رہی ہے جو رقم کی ڈیجیٹل شکل ہے اور وہی کچھ کر رہی ہے جو کچھ کسٹمر نے رقم جمع کروا کر خود کرنا تھا اور پھر رقم جمع کروانے پر رقم مع سود واپس لے رہی ہے۔
معلوم ہوا کہ بیلنس کوئی الگ سے پراڈکٹ نہیں بلکہ رقم کی ہی ڈیجیٹل شکل ہے باقی مزید تفصیل کی شیوخ رہنمائی کریں گے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
بیلنس پیسوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے، لہذا اس کو الگ پروڈکٹ کہنا محل نظر ہے الا یہ کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کا نظریہ لے لیا جائے کہ کرنسی ایک بھی ہو تو مثلا بمثل ضروری نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
غور طلب اور درست نکتہ ہے ، بیلنس واقعی ایک پراڈکٹ ہے، یہ کرنسی نہیں ہے کیونکہ اس سے مزید کوئی چیز خریدی نہیں جا سکتی ہے، یہ تو ڈیجیٹل کرنسی میں بھی تبدیل نہیں ہو سکتا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
موبائل کمپنی ہر صورت میں کٹوتی کرتی ہے، ہم رقم ادا کرکے لوڈ کروائیں اس صورت میں بھی تو وہ کٹوتی کرتے ہیں، یہ لوٹ کھسوٹ کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور ہم سب اس کا شکار ہیں۔ کوئی تھوڑا کوئی زیادہ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
سائل:
جاز والے کہتے ہیں کہ آپ فلاں نمبر ملائیں اور 200 کا لوڈ کروائیں تو معمول کی بیلنس کی کٹوتی نہیں ہو گی، بل کہ پورے کا پورا بیلنس ملے گا، اس میں کوئی مضائقہ تو نہیں؟
جواب:
یہ تو کمپنی اپنی مشہوری کیلے آفر دیتی ہے، تاکہ کسٹمر اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوں۔ حکومت جو ٹیکس کی مد میں کٹوتی کرتی ہے وہ آپ کی نہیں ہو گی، آپ کو پورا بیلنس ملے گا، بظاہر وہ کٹوتی کمپنی آپ کی طرف سے خود ادا کرتی ہے، اس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
ایڈوانس کے عوض کمپنی سود لیتی ہے، اس لیے اپنے آپ کو اس قدر منظم طریقے سے چلانا چاہیے کہ ایڈوانس کی نوبت نہیں آئے، اس کو پروڈکٹ کا نام دینا صحیح نہیں ہے، وہ آپ کو پیسے ہی دیتے ہیں اور پیسے ہی واپس لیتے ہیں، ایڈوانس بیلنس کرنسی کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے، لہذا ایڈوانس بیلنس کی طرف نہیں جانا چاہیے، یہ سود کی طرف لے جاتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
موبائل ایڈوانس پہ زائد لی جانے والی رقم سود کہلاتی ہے، حتی الوسع اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ اگر بیلنس کو رقم مانا جائے تو بھی زائد کاٹی جانے والی رقم سود بنتی ہے،
اور اگر آپ ائیر ٹائم یا کوئی اور سروس کہ لیں تو بھی کمپنی جو چیز ہمیں دیتی ہے، وہی چیز واپس لیتی ہے، یہ کوئی الگ اجناس تو نہیں ہوتیں ہیں، ایک ہی جنس ہوتی ہے تو واپسی کے وقت زائد لینا جائز نہ ہو گا، تیسری بات یہ بھی ہے کہ آپ دیکھیں کہ کمپنی جب آپ کو ایڈوانس دیتی ہے تو کیا چیز دیتی ہے،
کیا وہ ٹاک ٹائم دیتی ہے یا بیلنس یعنی پیسے تو کمپنی بیلنس مہیا کرتی ہے اور اس کا نام بھی ایڈوانس بیلنس ہی ہے۔ نہ کہ وہ ٹاک ٹائم دیتی ہے کہ جس پہ یہ کہا جا سکے کہ ٹاک ٹائم کی قیمت وہ اپنی مرضی سے مقرر کر سکتی ہے، بلکہ آپ تجربہ کر لیں جس طرح آپ ری چارج کرواتے ہیں تو آپ کا بیلنس رقم میں شو ہوتا ہے اور جب آپ استعمال کرتے ہیں تو بقایا رقم شو ہو جاتی ہے، ایسے ہی ایڈوانس بیلنس میں سے جتنی رقم آپ استعمال کریں گے تو بعد میں بقیہ رقم شو ہو گی نہ کہ بقیہ ٹاک ٹائم کہ اتنے منٹ رہ گئے ہیں ایسا نہیں ہوتا
تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ رقم نہیں بلکہ کوئی اور پراڈکٹ دیتے ہیں اور کچھ کمپنیوں نے تو نام بھی رکھا ہے، جیسے یو لون
اب اس کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اس کو قرض نہ سمجھا جائے اور اس پہ لی جانے والی زائد رقم کو سود نہ سمجھا جائے، بہرحال اس سے حتی الوسع بچنا ہی چاہیے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
اجتہادی مسئلے میں فریقین کا اختلاف ہو جائے تو راجح مرجوح کا تعین ثالث کرتا ہے ، کیونکہ فریقین میں سے ہر ایک اپنے موقف کو راجح ہی کہتا ہے، آپ راجح مرجوح کا تعین اپنی پسند کے کسی ثالث سے کروا لیجیے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
الحمد لله مجھے پہلے ہی اس پر شرح صدر ہے کہ ایڈوانس لینا سود ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ اجتہادی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ صریح قرآن وسنت کے خلاف اور سود کے زمرے میں آتا ہے ، یہاں علماء سے راجح موقف اس وجہ سے پوچھا ہے کہ تاکہ عوام الناس کو بتا سکیں کہ اس کے بارے میں علماء کا موقف ہے کہ یہ سود ہے، باقی اگر کوئی شخص اس میں دوسری رائے رکھتا ہے تو اس کو روپے اور بیلنس کے درمیان جو پیچیدگیاں ہیں ، وہ سمجھنے میں غلطی لگی ہے ، اگر اس کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے تو اس کا بھی یہی موقف ہو گا کہ یہ سود ہی ہے۔ یہ تمام بات ایڈوانس بیلنس کی ہو رہی ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
جزاكم الله خيرا
فضیلۃ الباحث ابو علی عثمان حفظہ اللہ
فہم کی غلطی ممکن ہے آپ کی طرف ہو۔ روپیہ کی ایک قدر ہے جس کے ذریعے سے دیگر اشیاء خریدی جا سکتی ہیں، جبکہ موبائل بیلنس اس قدر کا حامل نہیں ہے، جس سے دیگر اشیاء خریدی جا سکیں، اتنے بڑے فرق کے ساتھ یہ دونوں چیزیں ایک کیسے ہو گئیں اور ان کا حکم یکساں کیسے ہو گیا؟
آپ کے موقف کی بنیاد غلط قیاس آرائی پر استوار ہے جس میں متعدد فوارق پائے جاتے ہیں۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
اکثر مشایخ کی رائے یہی ہے کہ یہ سود ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے، لیکن یہ مسئلہ بہر صورت اجتہادی ہے، اگر موبائل کا بیلنس اور عام روپیہ یہ ایک ہی چیز ہو اور اس کا ایک ہونا منصوص ہو، تو پھر ہم کہیں گے کہ نص کی موجودگی میں قیاس نہیں چلے گا. لیکن یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔
ہمارے نزدیک موبائل بیلنس اور جس پیسے کے ذریعے یہ بیلنس حاصل کیا جاتا ہے، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
اگر کسی جگہ ایک ہی موقف بیان کرنا ہو تو پھر زیادہ اہل علم اور مشایخ کی رائے بیان کرنے پر اکتفا کیا جائے تو یہ بھی درست ہے۔
جب کسی مسئلے میں اہل علم کی تفصیلی آراء آ جاتی ہیں، تو کم ازکم کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ علمائے کرام نے مسئلہ سمجھے بغیر کوئی موقف اختیار کر لیا ہے، بلکہ اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ علماء الحمد للہ اس کے مالہ وما علیہ سے واقف ہیں، اور انہوں نے جو بھی موقف اختیار کیا ہے وہ دلائل کی بنیاد پر ہے، نہ کہ کسی چيز کے حقائق سے لا علمی کی بنیاد پر۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
شیخ اگر موبائل بیلنس کو ایک الگ جنس تصور کیا جائے تو پھر بھی یہ سود کی صورت ہی بنے گی، کیونکہ جنس کا جنس کے ساتھ تفاضل جائز نہیں ہے تو جو اضافی بیلنس وہ کاٹتے ہیں وہ سود ہوگا۔
فضیلۃ الباحث صائم عتیبی حفظہ اللہ
یہاں جنس کا جنس کے ساتھ تفاضل کی صورت نہیں ہے ، بلکہ پیسے کے عوض بیلنس خریدا جاتا ہے ، ورنہ تو پھر سو روپے کا کارڈ خرید کر اس میں پچھتر روپے بیلنس آنا بھی سود ہو گا۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
اس طرح کا خاص کارڈ بلا قیمت کیسے ممکن ہے ، لہذا اس کے پیسے تو منہا ہوں گے یا پھر الگ سے دینا ہوں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پیسے کے عوض بیلنس خریدنا اور ہے اور اس کے بعد جب بیلنس کو ایڈوانس حاصل کیا جاتا ہے تو پھر پیسے نہیں بلکہ بیلنس ہی کٹتا ہے،
شیخ مکرم بیلنس اور پیسے دونوں الگ جنس ہیں، جس میں تفاضل جائز ہے ، جبکہ بیلنس کو بیلنس کے بدلے میں حاصل کرنا الگ مسئلہ ہوگا۔ والله اعلم
فضیلۃ الباحث صائم عتیبی حفظہ اللہ
بیلنس کے بدلے میں بیلنس والی بات ویسے مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے، میں اسے پیسے کے عوض میں بیلنس سمجھ رہا ہوں۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
استاد مکرم جب ایڈوانس بیلنس حاصل کیا جاتا ہے تو پھر بعد میں پیسے نہیں بلکہ بیلنس ہی کاٹا جاتا ہے۔
فضیلۃ الباحث صائم عتیبی حفظہ اللہ
اسی پیچیدگی کی طرف ہی میں نے اشارہ کیا تھا کہ جب ہم لوڈ کرواتے ہیں اور ایڈوانس لیتے ہیں تو یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، ابھی مسئلہ صرف ایڈوانس بیلنس لینے کا ہو رہا ہے بس اسی پر بات ہونی چاہیے، لوڈ کا مسئلہ ایک الگ مسئلہ ہے اس کا ایڈوانس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث ابو علی عثمان حفظہ اللہ
لوڈ کرواتے ہیں تو گویا نقد بیلنس خریدتے ہیں ، جب ایڈوانس لیتے ہیں تو گویا ادھار بیلنس خریدتے ہیں ، نقد اور ادھار کی قیمت طے کرکے فرق رکھنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
بالکل استاد جی بیلنس کے بدلے میں بیلنس کاٹا جاتا ہے اور یہ تفاضل کی صورت ہے اور ایک جنس میں تفاضل جائز ہی نہیں ہے تو یہ سود کی ہی ایک صورت بنے گی، ایڈوانس لے کر وہ پیسوں کے عوض بیلنس نہیں خریدتے بلکہ وہ بیلنس کے عوض بیلنس حاصل کرتے ہیں اور پھر بعد لوڈ کرواتے وقت پیسے نہیں بلکہ لوڈ کے بعد بیلنس ہی کاٹا جاتا ہے۔
فضیلۃ الباحث صائم عتیبی حفظہ اللہ
ہو سکتا ہے، آپ احباب کی بات درست ہو ۔ بارک اللہ فیکم!
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
آپ موبائل بیلنس کو ربا الفضل کی ربوی اجناس پر قیاس کر رہے ہیں، اس قیاس کی علت کیا ہے؟ اگر آپ ثمنیت کو علت قرار دے رہے ہیں تو وہ بیک وقت طرفین میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اس صورت میں بھی اگر ایک طرف جنس ہوگی تو دوسری طرف ثمن ہوگی۔
یعنی جب ہم ایڈوانس بیلنس حاصل کرتے ہیں تو کٹوتی کے وقت ہمارے پاس موجود بیلنس ثمن بن جاتا ہے، کیونکہ ائیر ٹائم خریدنے کی حد تک اس میں ثمنیت پائی جاتی ہے۔ اس صورت میں یہ ربا الفضل نہیں بنتا۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ