سوال (2110)
ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے، انھوں نے پیدائش کے اگلے ہی روز کم علمی کی وجہ سے دو بکرے ذبح کر دیے ہیں، اب پتہ چلا کہ عقیقہ تو ساتویں دن ہوتا ہے، تو کیا وہ بندہ اب پھر سے دو بکرے ذبح کرے گا یا وہی جو دوسرے دن کم علمی کی وجہ سے ذبح کیے ہیں کافی ہونگے؟
جواب
بسم اللہ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، باقی عقیقہ ہو چکا ہے۔ ان شاء اللہ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
عقیقہ ہوگیا ہے، ان شاءاللہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شوافع، حنابلہ، ابن القیم، ابن عثیمین رحمھم اللہ کے نزدیک ساتویں دن سے قبل عقیقہ جائز ہے، کیونکہ عقیقہ، سبب کے وجود کے بعد کیا گیا ہے۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
سوال: عقیقہ اگر دوسرے یا تیسرے دن کر دیا جائے کیا وہ عقیقہ شمار ہوگا یا عام صدقہ شمار کیا جائے گا. جس طرح اگر سات دن کے بعد کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ اب صدقہ ہی ہے عقیقے کا ٹائم تو گزر گیا ہے۔
جواب: امام شوکانی رحمہ اللّٰہ بیان کرتے ہیں:
«”اَلْعَقِیْقَهُ الذَّبِیْحَةُ اَلَّتِي تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِي الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الـْمَوْلُوْدِ”»
“عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔”
الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔
ساتویں دن کے بعد کی تو گنجائش اس لیے ہے کہ اگر مالی طور پر انسان کمزور ہے تو وہ بعد میں کر لے۔۔۔ لیکن پہلے کرنا سنت کے خلاف ہے۔۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ
سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی»
“ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔”و اللّٰہ اعلم۔
فضیلۃ الباحث حافظ سعد مجید حفظہ اللہ