کیا اساتذہ مجرم ہیں؟
علم و حکمت کی ادا مجھ کو ملی
کم نگاہی کی دوا مجھ کو ملی
آگہی جب دی مجھے استاذ نے
جاہلیت سے شفا مجھ کو ملی
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے زیادہ تمکنت، سب سے اعلا و ارفع مقام اور سب سے زیادہ تعظیم و تکریم استاذ کو دی جاتی کہ دنیا کے سب مہذب معاشروں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے، مگر اکرام و احترام تو کجا آج اساتذہ کی بے توقیری کا کوئی لمحہ رایگان نہیں جانے دیا جاتا۔ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز سے کر سی ای او ایجوکیشن تک سب اپنا غصّہ اساتذہ پر اتارتے ہیں، محکمہ ء تعلیم میں ہیڈ ٹیچرز اپنے آپ کو آفیسرز سمجھتے ہیں اور یہ بھی اساتذہ کی طعن و تشنیع کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔ سوائے تدریس کے وہ کون سا کام ہے جو اساتذہ سے نہیں لیا جا رہا۔ڈینگی مہم، شجر کاری کے کارہائے نمایاں، فائلر اور نان فائلر کے گوشوارے، ووٹر لسٹ کی تیاری سمیت درجنوں کام اساتذہ سے لیے جا رہے ہیں، اب صبح سویرے طلبہ کو خوش آمدید کہنے کی تصاویر، اسمبلی میں ” میسج آف دی ڈے “ کی ویڈیوز بھی لازمی قرار دے دی گئی ہیں۔سارا نظام محض تصاویر، ویڈیوز اور کاغذی پلندوں پر چل رہا ہے۔ بے شمار ذمہ داریاں ہیں جو اساتذہ کو زبردستی تھوپ دی گئی ہیں۔استاذ کسی کو ہلکی سی سرزنش کر دے یا کوئی ایک آدھ ڈنڈا مار دے تو میڈیا کو ایک انتہائی اہم خبر مل جاتی ہے اور استاذ کو پیڈا ایکٹ کے قوانین میں الجھانے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ پاس فیل کا سارا نظام ختم کر دیا گیا ہے، سارے طلبہ و طالبات کو اگلی کلاس پرموٹ کر دیا جاتا ہے، جس کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم و تعلم کا وہ معیار ہی باقی نہیں جو طلبہ کی کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کر سکے۔
اساتذہ کی اکثریت اپنے طلبہ سے محبت کرتی ہے۔
سکولوں میں تفریح کا سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا تھا۔ تعلیمی ماحول کو موثر بنانے کے لیے تفریح انتہائی ضروری ہوتی ہے مگر اب تفریح کو کارِ زیاں سمجھا جانے لگا ہے۔ اکثر سکولز میں تفریح بند کر دی گئی ہے۔
رانا سکندر جب بھی مائیک کے سامنے بیٹھتا ہے، وہ سرکاری سکول کا استہزا اور سرکاری اساتذہ کی تضحیک کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آں جناب سرکاری سکولوں کا موازنہ بیکن ہاوس اور ہائی پروفائل سٹی سکولز سے کرتا ہے۔ آپ سرکاری سکولز کا بہ غور جائزہ لیں تو یہاں ایسے بچے زیرِ تعلیم ہیں جن کے پاوں میں جوتے تک نہیں ہوتے، ان کے پہننے کے لیے وردی تو کجا ، عام لباس تک معیاری نہیں ہوتا۔ یہ حقیقیت ہے کہ آج سرکاری سکولز کو اس قدر مطعون کر دیا گیا ہے والدین خود ہی اپنے بچوں سرکاری سکول بھیجنے سے گریز کرنے لگے ہیں، جب وزیر تعلیم خود سرکاری تعلیمی اداروں کی تنقیص کر کے ان کے معائب بیان کرے گا تو عوام الناس یہ سب سن کر اپنے بچوں کو کس طرح سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں صرف ایسے بچے ہی آتے ہیں کہ جن کے پاس کاپی پینسل کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ایسے بچے ہی سرکاری سکولوں کا رخ کرتے ہیں جن کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ کسی طرح میٹرک پاس کر لے اور اسے کسی پرائیویٹ فیکٹری میں ملازمت مل جائے۔ تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری سکولز میں پڑھنے والے بچے ایسے ہیں کہ جنھیں گھر پہنچ کر شام کو محنت مزدوری کرنا ہوتی ہے، کوئی کھیتی باڑی کرتا ہے تو کوئی مویشیوں کے لیے چارہ اور گھاس کاٹ کر لاتا کچھ بچوں کے والدین کو تو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کس جماعت میں پڑھ رہا ہے، آپ شاید حیران رہ جائیں کہ کچھ والدین کو اپنے بچوں کے نام تک کا پتا نہیں ہوتا۔ اگر طلبہ کے والدین کو سکول میں بچے کی خراب کارگزاری کی رپورٹ بتانے کے لیے بلایا جائے تو جواب ہوتا ہے کہ ” ماسٹر صاحب! کون سا اس نے ڈاکٹر بننا ہے بس اسے سکول میں رہنے دو اس لیے کہ سکول سے باہر کا ماحول بہت گندہ ہے سکول میں اس لیے داخل کروایا ہے کہ بچہ آوارہ بچوں کی صحبت سے بچ جائے۔“ ایسے طلبہ و طالبات کا مقابلہ آپ پرائیویٹ سیکٹر سے کرتے ہیں جو گھر جا کے ڈنر کر کے کوچنگ سینٹر کا رخ کرتے ہیں پھر گھر آتے ہیں وہاں بھی ان کے لیے ایک انسٹرکٹر رکھا گیا ہوتا ہے جو ان کو ہوم ورک اور اگلے دن کا ٹسٹ اپنی نگرانی میں تیار کرواتا ہے پھر مقابلہ کس چیز کا؟
یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم زمینی حقائق اور معروضی حالات کا جائزہ لیے بغیر ہی اساتذہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، میں سب اساتذہ کی وکالت نہیں کر رہا، یقیناً کچھ اساتذہ تساہل پسندی میں ضرور مبتلا ہوں گے۔ لیکن اگر ایک وزیرِ تعلیم خود ہی اپنے ادارے کے نقائص اور معائب دُور کرنے کے بجائے محض میڈیا پر ڈھنڈورا پیٹتا رہے گا تو کون سا والد یا والدہ ہو گی جو سرکاری سکولز میں اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے بھیجے گی۔
ایسے ہزاروں سکول ہیں جہاں ایک بھی درجہ چہارم کا ملازم نہیں ہے، جہاں سائنس کے اساتذہ موجود نہیں ہیں اور ایسے بھی سیکڑوں سکول ہیں جہاں ہیڈ ٹیچر تک موجود نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی خرابیوں کو دُور کرنے کے بجائے محض ان خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنا کون سی دانش مندی ہے؟
(انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )