سوال (4548)
شرعًا نکاح کے لیے عمر کا تعین ثابت نہیں ہے، دینِ اسلام نے نکاح کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، اگر اسلام میں عمر کی قید ہوتی پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے غلطی کی ہے، قانونی مشکلات کی پیچیدگیوں سے بچنے یا جدید دنیا کے تقاضوں اور یا ملکی امور میں حکمت کی غرض سے اٹھارہ سال مکمل ہونے پر نکاح کرانے کا قانون شرعًا معیوب نہیں، بلکہ یہ بہتر ہے۔ (واللہ اعلم)
کیا اس طرح کی رائے درست ہے؟
جواب
بظاہر تو ایسے دیکھنے میں آتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جب دین اسلام نے پاکدامنی کا کامل و مکمل آخری قانون دنیا کو دے دیا ہے، اس میں اس حوالے سے نکاح کے مقدس بندھن میں شروط و قیود نہیں پائے جاتے ہیں، تو اسے اظہار رائے کے نام پر تخت مشق بنانا یہ کہاں کی دانشمندی ہے، کہاں کا اسلام ہے، یہ ساری چیخ و پکار اس مقدس بندھن کے لیے ہے، جس کو نکاح کہا جاتا ہے، باقی مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں جو بندہ جو چاہے کر لے، کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے، خواہ عمر کوئی بھی ہو، بحث صرف جائز پر ہے، ناجائز پر کوئی بھی بات نہیں کرتا، نکاح پر بحث کرتے ہیں، باقی جانوروں کی طرح گناہ کر رہے ہیں، اس پر کوئی بات نہیں کرتا، اصل سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ نکاح سے ان کو کیا تکلیف ہو رہی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ