سوال (2694)
کسی مدرس نے پڑھاتے ہوئے اس حدیث کے تحت کہا ہے کہ “الائمة من قریش” حکمران قریش میں سے ہوں گے، اگر قریش کے علاؤہ کوئی اور بنتا ہے تو اس کو حکمران مانیں گے، اس طرح اس نے کہا ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی ہے، اگر حکمران بن گئی ہے تو مان لیں گے؟ کیا اس طرح کہنا صحیح ہے؟
جواب
مدرس نے بہت گول مول بات کی ہے جس سے لوگوں کو اشکالات پیدا ہو سکتے ہیں لگتا ہے جیسے کچھ لوگ علامہ صاحب پہ حکمرانوں پہ تنقید کی وجہ سے کیچڑ اچھالتے ہیں انکی بات سے بھی وہ مطلب نکل سکتا ہے شاید کہ بھی رہے ہیں کہ اللہ انکی غلطیاں معاف کرے۔
انکی بات کی اصل وضاحت مندرجہ ذیل ہے جو شاید مدرس صاحب کو پسند نہ آئے۔
1۔ کوئی بھی حکمران جو شرک نہ کرتا ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا اسکی اطاعت کرنا معروف میں فرض ہے۔
2۔ البتہ ایسے حکمران کی بھی شریعت کی مخالفت میں کسی صورت اطاعت نہیں کی جائے گی کیونکہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کے خلاف ہو گی۔
3۔ علامہ صاحب جو حکمرانوں کی غلطیوں پہ تنقید کرتے تھے تو وہ غلط نہیں تھا اسکی دلیل موجود ہے اور سب سے بڑی بات کہ یہ تو خود موجودہ حکمران کی اطاعت ہے کہ ان پہ تنقید کی جائے پس کسی موجودہ جمہوری حکمران پہ تنقید کرنا خود ان حکمران کی اطاعت ہے انکی نافرمانی نہیں ہے کیونکہ وہ موجودہ حکمران جس آئین کی بات کرتا ہے وہاں یہ لکھا ہے اور وہ اسکو مانتا ہے کہ ہر انسان کو حکمران کے غلط کاموں پہ تنقید کرنی چاہئے اسکا اسکو حق حاصل ہے۔
باقی جو بات عورت کی حکمرانی کی ہے تو وہ انکی دلیل درست ہے کہ اگر کوئی یزید کی طرح یا حجاج کی طرح ظلم کرنے والا حکمران بھی بن جائے تو اسکی اطاعت کرنا بھی فرض ہی ہو گا لیکن جب تک وہ شریعت کے خلاف کام کرنے کی بات نہ کرے صحابہ حجاج اور یزید کی اطاعت کرتے تھے لیکن معروف کاموں میں کرتے تھے واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ