سوال (2693)
کیا عورت جنازہ ادا کر سکتی ہے، ہمارے ہاں ایک روایت چلی ہے کہ جو بھی فوتگی ہوتی ہے، اس کے دو جنازے ہوتے ہیں، ایک گھر میں چند مرد اور پیچھے عورتیں صفیں بنا لیتی ہیں اور دوسرا جنازہ باہر ہوتا ہے کیا یہ درست ہے؟
جواب
نماز جنازہ مرد اور عورت دونوں کے لیے مشروع ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
“مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ، قِيلَ: وَمَا الْقِيرَاطَانِ ؟، قَالَ: مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ” [صحيح البخاري : 1325]
«جس نے جنازہ میں شرکت کی پھر نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا کہ دو عظیم پہاڑوں کے برابر»
باقی عورتیں جنازہ کی اتباع کرتے ہوئے قبرستان نہیں جائیں گی، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
“نُهِينَا عَنْ إتباع الجنائز وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا”صحيح البخاري : 1278]
«ہمیں (عورتوں کو) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا»
اس میں حکمت کی بات یہ ہے کہ ایک تو عورت کو مردوں کے فتنہ قرار دے دیا گیا ہے، اس کے علاؤہ عورتیں صبر بھی نہیں کرسکتی ہیں، جنازے کی اتباع کرتے ہوئے یا قبرستان جا کر عورتیں بے صبری کا مظاہرہ کریں گی۔
نماز جنازہ سے عورت کو منع نہیں کیا گیا ہے، باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور بعد کے ادوار میں عورتیں مسجد میں نماز جنازہ پڑھتی تھی۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ اظہار کیا تھا کہ سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ سیدہ بھی شریک ہوں۔
عباد بن عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ
“أَنَّ عَائِشَةَ أَمَرَتْ أَنْ يَمُرَّ بِجَنَازَةِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ فِي الْمَسْجِدِ فَتُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَأَنْكَرَ النَّاسُ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ مَا أَسْرَعَ مَا نَسِيَ النَّاسُ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ بْنِ الْبَيْضَاءِ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ” [صحيح مسلم : 973]
“سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں سے گزارا جائے (تاکہ) وہ بھی ان کا جنازہ ادا کر سکیں۔ آپ کی بات پر لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: لوگ کس قدر جلد بھول گئے! رسول اللہ ﷺ نے (بدری صحابی) سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی”
ایک ہی میت کے متعدد جنازے پڑھے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا، أَوِ امْرَأَةً، كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ، وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ ؟، قَالُوا: مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَفَلَا آذَنْتُمُونِي، فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا، وَكَذَا قِصَّتُهُ، قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ” [صحيح البخاري : 1337]
«کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم ﷺ کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ ﷺ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( ﷺ ) ! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں (اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چناچہ آپ ﷺ اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی»
باقی جو سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے کہ گھر میں الگ جنازہ ہو رہا ہے، باہر الگ جنازہ ہو رہا ہے، ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ مسجد میں جنازے کا انتظام ہو تاکہ عورتیں بھی شریک ہوں یا گھر کے باہر عیدگاہ میں انتظام ہو، باقی اس صورت کو ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، ہاں مسجد میں اور باہر کوئی انتظام عورتوں کے لیے نہیں بن رہا ہے تو پھر گھر کے اندر بھی جنازہ پڑھا جاسکتا ہے، لیکن پہلے مردوں کی صفیں ہونگی، بعد میں عورتوں کی صفیں ہونگی۔
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ