سوال (2727)

کیا عورت قبرستان جا سکتی ہے؟

جواب

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا” [صحيح مسلم : 1977]

«میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا ہے، لیکن اب تم زیارت کر سکتے ہو»
“فَزُورُوهَا” میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، اس لیے کہ عورت کبھی کبھار قبرستان جا سکتی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔
دلیل نمبر 1:
عبد اللہ بن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک دن عائشہ رضی اللہ عنھا قبرستان سے آئیں تو پوچھا گیا: اے ام المومنین! آپ کہاں سے آئی ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر کی قبر سے آئی ہوں، تو پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ” نعم! “کان نھی ثم أمر بزيارتها” جی ہاں! آپ نے منع فرمایا تھا، پھر ( بعد میں ) زیارت کا حکم دے دیا تھا۔ [المستدرک للحاکم ۳۷۶/۱ ۱۳۹۲، وسندہ صحیح]

دلیل نمبر 2:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ وَهِيَ تَبْكِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي” [صحيح البخاري: 1252]

«نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر»
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ.” [سنن الترمذي: 1056]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اس روایت کے بارے میں امام قرطبی کہتے ہیں کہ

“اللعن المذكور في الحديث إنما هو للمكثرات من الزيارة لما تقتضيه الصيغة من المبالغة”

حدیث میں جو لعنت کا ذکر ہے، یہ ان عورتوں کے لیے ہے جو کثرت کے ساتھ زیارت کرتی ہیں، جیسا کہ مبالغہ کے صیغے کا تقاضا ہے۔
باقی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ لا الہ نے “زائرات القبور” پر لعنت فرمائی ہے۔ یہ روایت ضعیف ہے۔
لیکن کچھ شروط و قیود کے ساتھ جائے گی۔
(1) : مکمل پردے کے ساتھ جائے گی۔
(2) : عورت خوشبو لگا کر قبرستان نہیں جائے گی۔
(3) : وہاں قبرستان میں مرد و زن کا اختلاط نہ ہو۔
(4) : اپنے کسی محرم رشتے دار کے ساتھ جائے۔
(5) : عورت وہاں جا کر بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ یعنی روئے اور پیٹے نہیں۔
(6) : سال میں دن متعین کر کے نہ جائے۔ جیسا کہ دس محرم میں ہی جانا ہے۔ آج کل معاشرے میں یہ عام ہے، یوم عاشورہ میں قبرستان سب جاتے ہیں، یا عیدین کے دنوں میں خصوصاً جاتے ہیں۔
(7) : عورت کا زیادہ تر قبرستان جانا حرام ہے، بلکہ کبھی کبھار جائے گی۔ جیسا کہ اوپر وضاحت ہوچکی ہے۔
(8) : قبرستان جانے کا مقصد محض میت کے لیے دعا ہو اور خود کے لیے عبرت و نصیحت کا حصول ہو۔
(9) : عورت کا غیر لوگوں کی قبر پہ جانا حرام ہے۔
جیسا کہ یہ روایت ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو یہ نہیں سمجھتی تھی کہ آپ نے اسے پہچان لیا ہے، پھر جب آپ راستے کے درمیان پہنچے تو کھڑے ہو گئے حتی کہ وہ عورت قریب آگئی، دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی ﷺ کی بیٹی فاطمہ تھیں۔ آپ نے انھیں فرمایا: اے فاطمہ! اپنے گھر سے کیوں باہر آئی ہو؟ انھوں نے جواب دیا: میں اس میت والوں کے گھر گئی تھی، تاکہ تعزیت کروں اور مغفرت کی دعا کروں۔ آپ نے فرمایا: ” شاید تو اُن کے ساتھ کدی ( قبرستان ) تک بھی گئی ہے؟ انھوں ( سیدہ فاطمہ ) نے جواب دیا: میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں کہ وہاں ( قبرستان تک ) گئی ہوں اور میں نے آپ کو اس کے بارے میں ( منع کرتے ہوئے ) سنا ہے۔
[سنن ابي داؤد : 3123]
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور ربیعہ بن سیف المعافری کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، لہذا امام نسائی کا انھیں ضعیف قرار دینا جمہور کی توثیق کے بعد مضر نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ