سوال (2642)
کیا سنت یہ ہے کہ اذان کے فوری بعد جماعت ہو ؟بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سنت یہی ہے اگرچہ ہمارا عمل اس کے خلاف ہے، اس بات کی مکمل وضاحت مطلوب ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک سوال اور یہ ہے کہ سنت جو فرائض سے پہلے ہیں ان کا تعلق اذان سےہے یا نہیں ہے،کیا اذان سے پہلے بھی سنتیں پڑھ سکتے ہیں؟
جواب
جیسے ہی نماز کا وقت ہو، سنتیں اور فرائض دونوں ادا کیے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارےہاں ایک نظام چل رہا ہے، جو اوقات کے اندر ہی ہے، اس لیے بغیر کسی مقصد کے بات کو اچھال کر بات کا بتنگڑ نہیں بنانا چاہیے، باقی اذان کے بعد وقت دینا چاہیے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ” [صحيح البخاري: 627]
«ہر دو اذانوں (اذان و تکبیر) کے بیچ میں نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پانچوں نماز میں سے جس کی پہلی سنتیں ہیں، وہ گھر سے پڑھ کر تشریف لاتے تھے ز ایک حدیث مبارک میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے عشاء کی نماز کے لیے انتظار کرتے ہوئے بیٹھے ہی نیند کے سبب سر جھک جاتے، اسی طرح صحیح البخاری کی حدیث کے مطابق ایک سفر میں فجر کی نماز سوئے رہنے کے سبب لیٹ ہو گئی تو سورج طلوع ہو چکنے کے بعد آنکھ کھلنے پر سیدنا بلال رضی الله عنہ نے اذان کہی پھر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ نے سنتیں ادا کیں پھر جماعت سے نماز پڑھی ایسے ہی مغرب کی اذان کے بعد صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم کا دو رکعت پڑھنا احادیث میں موجود ہے، بلکہ اس پر قولی، فعلی، تقریری احادیث موجود ہیں۔ اس لیے اذان کہنے کا مقصد نمازیوں کو اطلاع دینا ہے اور اس کے بعد ان کے پہنچنے کے لیے وقت دیا جانا عہد رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ہی چلا آ رہا ہے، تو بال کی کھال اتارنے سے گریز کرنا چاہیے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ