سوال (1745)

کیا بڑے جانور میں دو ، تین ، چار یا پانچ حصے بھی ہوسکتے ہیں ؟

جواب

گائے میں قربانی کا کم از کم حصہ ایک ہے اور زیادہ سے زیادہ سات حصے ہیں ، درمیان کے تمام نمبرز پر حصہ کے ذریعے شمولیت ہو سکتی ہے ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

گائے میں زیادہ سے زیادہ حصے سات ہوتے ہیں، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے ، لیکن کم کی کوئی حد نہیں ہے ، ایک آدمی بھی چاہے تو اپنی طرف سے مکمل گائے ذبح کر سکتا ہے، اسی طرح دو، تین، چار، پانچ، چھے جتنے مرضی لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل :
سات حصص پانچ پر کیسے تقسیم کیے جائیں گئے ؟
جواب :
جتنے لوگ ہوں گے، حصے بھی اتنے ہی کیے جائیں گے ، جس طرح گائے کے سات حصے کر لیے جاتے ہیں، اسی طرح پانچ یا کم زیادہ بھی کیے جا سکتے ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل :
پھر تو باقی دو حصص پانچ بندوں میں ہی تقسیم ہوں گئے تو ایک حصے کے ساتھ دوسرا آدھا آدھا حصہ یا کچھ کم آئے گا تو آدھا بھی قربانی ہو جاتا ہے ، پھر تو دو غریب لوگوں کا ملکر پیسے جمع کر کے قربانی کرنے کا جواز بھی ہوگا ؟
جواب :
اویس بھائی یہ شرعی مسئلہ نہیں، بلکہ حساب اور ریاضی سے متعلق مسئلہ ہے ، یہ بالکل آسان حساب ہے جسے آپ مشکل سمجھ رہے ہیں ، آدھا قربانی نہیں ہو سکتا ، لیکن یہاں آدھا نہیں ہے ، جسے آپ آدھا سمجھ رہے ہیں اصل میں اس کے ساتھ ایک مکمل حصہ پہلے سے موجود ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سائل :
جو اشکال ہے وہ یہ ہے کہ جانور کو ساتھ حصص میں تقسیم کرنا ضروری ہے یا کہ نہیں ؟ مثلا پانچ لوگ ہیں تو دو لوگ دو دو حصص لے لیں اور باقی تین ایک ایک ، آیا کہ اس طرح تقسیم کی جائے گی یا مکمل گائے کو پانچ پر تقسیم کر دیا جائے ۔
جواب :
گائے میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہوتے ہیں ، تاکہ ہر شخص کا گائے میں کم از کم ساتواں حصہ ہو ، کم از کم ساتواں حصہ ہونا ضروری ہے۔ اگر سب شرکاء کا یا کسی کا ساتویں حصے سے زیادہ بن جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں جو سب کی سب جائز ہیں ، اگر آپ سات حصوں سے زیادہ کریں گے تو پھر لازما سب کا یا بعض اشخاص کا ساتویں حصے سے کم ہو گا، جو کہ جائز نہیں۔ لیکن اگر سات یا اس سے کم لوگ ہوں، تو پھر ساتویں حصے سے کم نہیں ہوتا، زیادہ ہوتا ہے جو کہ نفل اور تطوع ہے اور جائز ہے

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، جائز ہے ، ایک کے حصہ اگر ڈیڑھ حصہ بھی آرہا ہے ، شریعت نے زیادہ کی حد مقرر کی ہے اور کم کی نہیں کی ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

اصول یہ ہے کہ ایک جانور ایک کی طرف سے ہو ، لیکن جانور بڑا ہو تو اس میں سات کی اجازت ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات سے کم بھی شریک ہو سکتے ہیں ، کیونکہ سات اگر شریک ہونا جائز ہیں تو چھ اور پانچ اور چار تو بالاولی جائز ہیں ، لیکن ایک تک یہ جواز ہے اس کے بعد نہیں ، اب اگر کوئی ایک حصہ کر چکا ہو اس کے بعد باقی حصوں میں آدھا لے لے تو یہ بھی جائز ہے ، کیونکہ قربانی کا اصل حق ادا ہو چکا ہے اب زیادہ نفلا ہے اور اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ، لیکن اگر کسی نے اصل حق یعنی ایک حصہ کو ادا نہیں کیا تو وہ آدھے میں نہیں شریک ہو سکتا اگر ہو گا تو اس کی قربانی نہیں ہو گی تاہم باقی حصوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ