سوال (4562)

جو جنازے کی دعا میں جو ہم پڑھتے ہیں:

“زوجا خيرا من زوجه واهلا خيرا من اهله”

کیا انسان کو آخرت میں اس دنیا سے علاوہ کوئی زوج اور اہل ملے گا؟ جو اس سے بہتر ہوگا؟

جواب

وہاں کی ہر چیز یہاں سے بہتر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِىَ لَهُمۡ مِّنۡ قُرَّةِ اَعۡيُنٍ‌ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ” [سورۃ سجدہ: 17]

”پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے، اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

[ قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ، قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ: «{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ}»] [ بخاري، التفسیر، باب قولہ: «فلا تعلم نفس ما أخفي… »: ۴۷۷۹۔ مسلم: ۲۸۲۴ ]

’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال آیا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو:

«{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ }» [ السجدۃ: ۱۷ ] ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

(الف)  اس سے مراد دنیوی زوج و اہل کا نعم البدل ہے؟

امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے مراد آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے ساتھی مہیا فرمائے گا جو دنیا کے ساتھی سے اخلاق، حسن، دین داری اور جنتی نعمتوں میں افضل ہوں گے۔
یہ متبادل بھی ہو سکتا ہے اور دنیاوی شریک حیات کی حالت میں بہتری بھی مراد ہو سکتی ہے۔

(ب)  اگر دونوں (شوہر و بیوی) جنتی ہوں تو کیا جدا کر دیا جائے گا؟
نہیں، اگر دنیاوی زوج اور اہل بھی نیک و صالح ہوں اور جنت میں جانے کے مستحق ہوں تو اکثر مفسرین و محدثین کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں کو جوڑ دے گا۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک، اگر زوج جنت میں ساتھ ہو تو ممکن ہے کہ “خیرًا من زوجه” کا مطلب ہو “اسی کو جنتی صورت میں بہتر بنا دینا”۔
یہ تو واضح ہے کہ جنت میں انسان کو جو کچھ بھی ملے گا، وہ دنیا سے کہیں بہتر ہوگا:

وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ(فصلت: 31)

اگر دنیا میں بیوی/شوہر نیک و صالح نہ تھا، یا باہمی تعلق درست نہ تھا، تو اللہ جنت میں اس کی جگہ ایسا زوج دے گا جو زیادہ پاکیزہ، خوش اخلاق اور کامل ہوگا۔قرآن میں بھی حو رالعین اور مُطهَّرات کا ذکر ہے جو جنتی مردوں کو دی جائیں گی۔
مرنے والے کے لیے آخرت میں مکمل بہتر زندگی کی دعا کی جا رہی ہے۔
اس دعا میں محض “بخش دے” نہیں، بلکہ بہتر گھر، بہتر رشتہ دار، بہتر جیون ساتھی یہ سب مانگنا آخرت کی اعلیٰ نعمتوں کی تمنا کا اظہار ہے۔
* اگر عورت کے لیے کہا جائے “زوجًا خیرًا من زوجها”، تو کیا وہ اس کے شوہر سے بہتر ہو گا؟ کیا یہ شوہر کے لیے باعثِ توہین نہیں؟
یہ ایک عمومی دعا ہے، ہر میت کے لیے ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔
اس کا مطلب دنیا سے بہتر نعم البدل کی خواہش ہے، نہ کہ دنیاوی تعلقات کی نفی۔ اور اگر شوہر بھی نیک و صالح ہو تو اللہ دونوں کو بہتر حالت میں جنت میں اکھٹا کرے گا۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ