سوال (3591)
بازار میں داخل ہونے کی کوئی دعا سندا ثابت ہے کیا؟
جواب
بازار میں داخل ہونے کی کوئی دعا ثابت نہیں ہے۔
عمل اليوم والليلة لابن السني: 181
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْقَلُوسِيُّ، ثنا أَبِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَرَجَ إِلَى السُّوقِ قَالَ: *«بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ السُّوقِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ السُّوقِ وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُصِيبَ فِيهَا يَمِينًا فَاجِرَةً، أَوْ صَفْقَةً خَاسِرَةً» [عمل اليوم والليلة لابن السني ١/١٤٩ — ابن السني (ت ٣٦٤)]
محمد بن ابان بن صالح الجعفی ضعیف راوی ہے. سندہ، ضعیف
تنبیہ: بازار میں داخل ہونے کی کوئی بھی دعا سندا ثابت نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
راجح یہی ہے کہ اس بارے کوئی مرفوعا روایت ثابت نہیں ہے، بعض اہل علم و فضل نے الدعاء للطبرانی کی ایک بظاہر صحیح نظر آنے والی سند کی وجہ سے اس روایت کو اسے شاہد بنا کر ثابت کہہ دیا، مثلا شیخ ابو سیف جمیل احمد صاحب نے مشکاۃ المصابیح پڑھاتے ہوئے اس سند پر صحت کا حکم بتایا تو ایک طالب علم نے مجھے بتایا تو میں نے شیخ صاحب جو فون کال کے ذریعے بتایا یہ سند بھی منقطع ہے، تو شیخ صاحب نے کہا چلیں میں دیکھتا ہوں پھر مجھے کال کر کے بتایا کہ آپ کی بات درست ہے واقعی یہ سند منقطع ہے۔
فائدہ: یہ دعا متن کے سیاق کے مطابق پڑھ سکتے ہیں إن شاءالله الرحمن
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻨﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻬﺬﻳﻞ، ﻋﻦ ﺣﻨﻈﻠﺔ ﺑﻦ ﺧﻮﻳﻠﺪ اﻟﻌﻨﺰﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺧﺮﺟﺖ ﻣﻊ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ اﻟﺴﺪﺓ ﺳﺪﺓ اﻟﺴﻮﻕ، ﻓﺎﺳﺘﻘﺒﻠﻬﺎ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﻣﻦ ﺧﻴﺮﻫﺎ ﻭﺧﻴﺮ ﺃﻫﻠﻬﺎ، ﻭﺃﻋﻮﺫ ﺑﻚ ﻣﻦ ﺷﺮﻫﺎ ﻭﺷﺮ ﺃﻫﻠﻬﺎ، ﺛﻢ ﻣﺸﻰ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ ﺩﺭﺝ اﻟﻤﺴﺠﺪ، ﻓﺴﻤﻊ ﺭﺟﻼ ﻳﺤﻠﻒ ﺑﺴﻮﺭﺓ ﻣﻦ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺣﻨﻈﻠﺔ، ﺃﺗﺮﻯ ﻫﺬا ﻳﻜﻔﺮ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻨﻪ؟ ﺇﻥ ﻟﻜﻞ (ﺁﻳﺔ) ﻛﻔﺎﺭﺓ، – ﺃﻭ ﻗﺎﻝ: ﻳﻤﻴﻦ
[التفسير من سنن سعيد بن منصور: 141 صحیح]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سوال: کیا بازار میں داخل ہونے کی دعا ضعیف ہے؟
جواب: بازار میں داخل ہونے کی دعا مرفوعا ثابت نہیں ہے کیونکہ اس باب کی جمیع اسانید ضعیف ہیں۔
الدعاء للطبرانی کی ایک سند بظاہر صحیح ہے مگر وہ سند بھی معلول و منقطع ہے۔
اس سند کی اس علت پر میں نے کوئی 14 سال پہلے شیخ ابو سیف ( آپ ان دنوں واربرٹن میں سینئر مدرس ہیں اور علم رجال وحدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں) صاحب کو بذریعہ فون اطلاع کی تھی اور شیخ صاحب نے خود بھی مراجعت کی تو دوبارہ فون کال کر کے کہا جی آپ کی بات درست ہے ایسے ہی ہے۔
الدعاء للطبرانی کی بظاہر صحیح نظر آنے والی روایت پر امام علی بن مدینی کا کلام
ملاحظہ فرمائیں:
ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ ﻓﻲ ﻣﺴﻨﺪ ﻋﻤﺮ ﻭاﻣﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻬﺎﺟﺮ ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ ﻓﻴﻤﻦ ﺩﺧﻞ اﻟﺴﻮﻕ ﻓﺈﻥ ﻣﻬﺎﺟﺮ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﺛﻘﺔ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺎﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﻠﻘﻪ ﺃﺑﻮ ﺧﺎﻟﺪ اﻷﺣﻤﺮ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺛﻮﺭ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻭاﻷﺣﻮﺹ ﺑﻦ ﺣﻜﻴﻢ ﻭﻓﺮﺝ ﺑﻦ ﻓﻀﺎﻟﺔ ﻭﺃﻫﻞ اﻟﺸﺎﻡ ﻭﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻬﺎﺟﺮ ﻣﻦ ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺳﺎﻟﻤﺎ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺭﻭﻯ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺷﻴﺦ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻋﻨﺪﻫﻢ ﺑﺜﺒﺖ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ ﻗﻬﺮﻣﺎﻥ ﺁﻝ اﻟﺰﺑﻴﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎﻩ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ اﻟﺮﺑﻴﻊ ﻋﻨﻪ ﺑﻪ ﻓﻜﺎﻥ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ،
ﻳﻨﻜﺮﻭﻥ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﺷﺪ اﻹﻧﻜﺎﺭ ﻟﺠﻮﺩﺓ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻗﺎﻝ ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻯ ﻫﺬا اﻟﺸﻴﺦ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﺁﺧﺮ ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺭﺃﻯ ﻣﺒﺖﻻ ﻓﺬﻛﺮ ﻛﻻﻣﺎ ﻻ ﺃﺣﻔﻈﻪ ﻭﻫﺬا ﻣﻤﺎ ﺃﻧﻜﺮﻭﻩ ﻭﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻣﻬﺎﺟﺮ ﻳﺼﺢ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻓﻲ اﻟﺴﻮﻕ ﻟﻢ ﻳﻨﻜﺮ ﻋﻠﻰ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺩﻳﻨﺎﺭ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻧﺘﻬﻰ كلامه،[مسند الفاروق : 2/ 642 ،643]
فائدہ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻨﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻬﺬﻳﻞ، ﻋﻦ ﺣﻨﻈﻠﺔ ﺑﻦ ﺧﻮﻳﻠﺪ اﻟﻌﻨﺰﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺧﺮﺟﺖ ﻣﻊ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ اﻟﺴﺪﺓ ﺳﺪﺓ اﻟﺴﻮﻕ، ﻓﺎﺳﺘﻘﺒﻠﻬﺎ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻧﻲ ﺃﺳﺄﻟﻚ ﻣﻦ ﺧﻴﺮﻫﺎ ﻭﺧﻴﺮ ﺃﻫﻠﻬﺎ، ﻭﺃﻋﻮﺫ ﺑﻚ ﻣﻦ ﺷﺮﻫﺎ ﻭﺷﺮ ﺃﻫﻠﻬﺎ۔۔۔
التفسير من سنن سعيد بن منصور:(141) ،الدعاء للطبرانى:(796) ،المعجم الكبير للطبرانى:(8895) ،السنن الكبرى للبيهقى :(19902) صحيح ۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




