سوال (5162)
ایک عورت جو چالیس سال کی ہے، بیوہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، کیا وہ خود کسی مرد سے نکاح کر سکتی ہے؟ کیا ولی کی اجازت یا موجودگی لازمی ہے؟ یا بالغ اور عاقلہ ہونے کی صورت میں وہ خود نکاح کر سکتی ہے؟ اس بارے میں شریعتِ کی روشنی میں وضاحت فرما دیں، نیز اگر مختلف فقہی آراء ہوں تو ان کا ذکر بھی کر دیں۔
جواب
خواہ مطلقہ ہو یا کنواری، چالیس سال کی ہو یا چار سو سال، اس کو ولی کی ضرورت ہے، ولی کی اجازت اس کو چاہیے، خواہ وہ شریک ہو یا نہیں ہو، لیکن اذن یعنی اجازت اس کو دینا ہوگی، بیٹا بالغ ہے تو وہ بھی ولی بن سکتا ہے، لیکن بغیر ولایت کے اسلام میں نکاح نہیں ہے، جہاں تک فقہاء کی بات ہے تو ان کے درمیان اختلاف ہے، بدایۃ المجتہد میں ان کی بحث دیکھی جا سکتی ہے، باقی ہماری بات راجح ہے کہ ولایت ایک حقیقت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: ایک صحیح حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا”
شیخ محترم پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
یا لانکاح الا بولی والی حدیث کو کیسے سمجھا جائے؟
جواب: اس حدیث میں ثیبہ کے لیے کنواری کے مقابلے میں بات کے وزن کا ذکر ہے، اس کے علاؤہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آپ اس کو سو فیصد آزاد کردیں، ولی کو بھی خاطر میں نہ لائیں، ہرگز مراد یہ نہیں ہے، بلکہ یہ مراد ہے کہ باکرہ کے مقابلے میں اس کی بات زیادہ سنی جائے گی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ