سوال (2836)
چاول کاشت کرنے والے کسان حضرات اپنی فصل کٹائی اور خشک ہونے سے پہلے لیکن چاول بننے کے بعد فروخت کر دیتے ہیں، تو خریدار کمپنی خود سارے چاول کی کٹائی کرتی ہے، ایسے میں چاول کی اس فصل کا کسانوں پر عشر واجب ہو چکا ہوتا ہے؛ کیونکہ چاول بالیوں میں بن کر تیار ہو چکا ہے، لیکن کسان چونکہ چاول کٹائی سے پہلے ہی فروخت کر دیتے ہیں اور خریدار کمپنی خود کٹائی کر کے سارا چاول ساتھ لے جاتی ہے، تو اب انہی چاولوں سے عشر ادا کیا جائے گا یا ان کی قیمت لگا کر بھی عشر ادا کیا جا سکتا ہے؟
جواب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ” [الانعام: ۱۴۱]
«جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں سے اﷲ کا حق بھی ادا کرو»
جب فصل کٹے گی تو عشر ادا کیا جائے گا، اس وقت اس کا مالک کون ہے، اگر اس وقت اس کا مالک کمپنی والے ہیں، تو ان کے ذمے آجائے گا ، کسان اٹھا رہا ہے تو پھر کسان کے ذمے آجائے گا، باقی چاولوں سے بھی عشر دیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دیا جا سکتا ہے، اسی سے دیا جاتا ہے، اگر قمیت لگا کر دیں تب بھی ٹھیک ہے، اگر وہ نصاب تک پہنچتا ہے، نصاب شاید پونے انیس من ہے، اس کے حساب سے قمیت لگا کر دے دیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
شیخ محترم اس سوال میں لکھا ہے کہ مونجی کو کاٹنے سے پہلے ہی کَھڑی فصل کو بیچ دیتا ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:
اگر کاٹنے کی شرط لگاتا ہے کہ سودا ہوگیا ہے، اب اس کو کاٹ کر لے جائیں، پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ یہ سب کو معلوم ہے کہ درختوں پہ لگے ہوئے پھل کا اس طریقے سے سودا کرنا کہ وہ باقی بھی رہیں، درخت کاٹے نہ جائیں، غلط ہے، حدیث کے خلاف ہے، فصل کا معاملہ بھی اس طرح ہے، کیونکہ نہ جانے پکتے پکاتے کیا سے کیا ہو جائے، یہ پہلو نظر سے غافل رہا ہے، یہ قابل غور ہے، یہ جائز نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ