سوال (1619)

ایک بندے نے کورٹ میرج کی تھی ، اب اس کی اولاد بڑی ہو گئی ہے اور لڑکی کے والدین بھی رضا مند ہو گئے ہیں تو ان کی اولاد جو پیدا ہوئی ہے کیا یہ اولاد حرام کی ہے اور بندہ اس اولاد کو اپنی ولدیت نہیں دے سکتا ہے ، کیونکہ اس کا سسر کہتا ہے تیری یہ اولاد حرام کی ہے تو ان کو اپنی ولدیت نہیں دے سکتا ہے ۔

جواب

دیکھیں ہماری بحث علماء احناف سے ولی کے کے بارے میں ہے ۔
ابوموسی اشعری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”.[ سنن ابوداود: 2085]

’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔
اورام المومنین عائشہ رضى اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں، کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ “.[سنن ابوداود : 2083]

’ جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔اس کا نکاح باطل ہے ۔ اس کا نکاح باطل ہے‘۔
البتہ اس کے بعد کے مراحل پر سخت فتوی نہیں لگا سکتے ہیں ، نکاح کرنے والوں کو اپنی لاعلمی کی وجہ سے شبہ تو ہوگیا ہے ، شبہ ہو جائے تو پھر فتاوی نہیں دیے جاتے ہیں کہ تیری اولاد ایسی ہے ویسی ہے ، اس وقت ہی ولی کی اجازت کے ساتھ دوبارہ ایجاب و قبول کرایا جاتا تو یہ زیادہ بہتر تھا ، اب فتویٰ بازی کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، وہ نام اور ولدیت دے سکتا ہے ،اب اتنی بڑی جسارت تو نہیں ہوسکتی ہے کہ کثیر تعداد میں مسلمان جن کا موقف ہے کہ نکاح ہوجاتا ہے ، آپ ان کو کہیں کہ آپ کی اولاد ایسی ویسی ہے۔ یہ غیر ضروری تشدد ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ