سوال (4384)

ہم بینک اور جاز کیش وغیرہ میں رقوم جمع کرواتے ہیں (کرنٹ اکاؤنٹ)، بنک وغیرہ ان پیسوں سے کاروبار کرتے ہیں، ممکن ہے سودی کاروبار ہوں، کیا بینک وغیرہ میں پیسے رکھنا جائز ہے؟

جواب

حالت مجبوری میں اہل علم نے کرنٹ اکاؤنٹ کی گنجائش دی ہے، اس کو ہم جائز نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ یہ ایک مجبوری کی صورت ہے، کیونکہ اس کا متبادل کوئی راستے نہیں ہے، باقی بینک ایک سودی ادارہ ہے، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون صحیح نہیں ہے، کرنٹ اکاؤنٹ کی بحالت مجبوری اہل علم اس لیے اجازت دیتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ کی صورت میں آپ کے ہاں سود نہیں پہنچتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: ہم معاون تو بن رہے ہیں؟
جواب: جی ہاں: بس اس لیے اجازت دیتے ہیں کہ اس کا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے، یہ ایک مجبوری ہے، باقی جو جس قدر بچنا چاہتا ہے، اس سے اپنے آپ کو بچائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی ہاں، یہ بات صحیح ہے کہ ہم معاون بن رہے ہیں، اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم جو ضرورت ہے، وہ پیسے رکھ کر باقی پیسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جمع کرواتے ہیں، اللہ تعالیٰ پھر ضرورت کے وقت خود دے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سب سے پہلے اگر یہ غلطی فھمی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں سود نہیں ہوتا ہے تو اس کو غلطی فھمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے، کوئی بھی بینک کا اکاؤنٹ ہو وہ سود سے خالی نہیں ہوتا ہے، خواہ کرنٹ اکاؤنٹ ہو یا سیونگ اکاؤنٹ ہو، بس فرق یہ ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ میں یہ ہے کہ جو سود کماتے ہیں، اس میں سے کچھ حصہ ہمیں دے دیتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ میں سارا ہڑپ کر دیتے ہیں، ہمارا ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی تھی کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں سود نہیں ہوتا ہے، پاکستان میں کوئی بھی ایسا بینک نہیں ہے، جس کے پاس کرنٹ اکاؤنٹ کے لیے الگ سسٹم ہو، وہ اس رقم کو سودی رقم سے الگ کرتے ہوں، ایسا کوئی بھی سسٹم نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہمارے لیے مسجد و مدرسہ چلانا ناممکن ہے، اگر ہمارے پاس بینک اکاؤنٹ نہ ہو، کیا ہم اکاؤنٹ کی وجہ سے مسجد و مدرسہ بند کریں، یا اکاؤنٹ کو ایک اضطراری صورت سمجھ کر مسجد و مدرسہ کو جاری رکھیں، اکاؤنٹ مسجد و مدرسہ کی تسجیل کے حوالے ایک لازمی شرط ہے، اس لیے اہل حدیث، دیوبند یا بریلی ان سب نے حکومت کی یہ شرط طوعا و کرھا قبول کیا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کا بڑا کاروبار تب بھی آپ مجبور ہیں، کیونکہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی یا دیگر شھروں کی طرف رقم آپ بغیر سود کے نہیں بھیج سکتے ہیں۔
ہاں باقی یہ ہے کہ مذہبی لوگ ایک جگہ بیٹھیں، کم سے کم جو بڑے شہر ہیں، ان میں ایک ایسا سسٹم شروع کریں جو سودی نظام سے خالی ہو، پھر اس کو جو لوگ مذہبی پارلیمنٹ میں ہیں، وہ رول پلے کریں، لیکن اس میں بڑی رکاوٹیں ہیں، اس قدر رکاوٹیں ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ پتا نہیں ممکن بھی ہے یا نہیں۔ بس ہم مایوس نہیں ہوتے ہیں، امید کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

میں آپ کی بات پر اضافہ کرتا ہوں، پہلی بات اگر میں پیسوں کی دستی لے کر آتا ہوں، تو کیا راستہ محفوظ ہے، دوسری بات یہ ہے کہ وقت کتنا لگے گا، سیالکوٹ سے اگر آؤں تو کراچی بیس سے پچیس گھنٹے لگیں گے، بائے ائیر جیب شاید اجازت نہ دے، بلکہ یہ یقینی بات ہے، تیسری بات یہ ہے کہ جس کے پاس بیس ہزار بھی جیب میں ہیں، وہ بھی ہمیشہ ڈر رہا ہوتا ہے، کیونکہ آج ایک ہزار کے پیچھے بھی لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کو پتا ہے کہ قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، اس لیے اس نظام کو طوعا و کرھا قبول کرنا ہوگا، یہ ہماری مجبوری ہے، ایک بات یہ ہے کہ تمام بلز، پیٹرول، موبائل وغیرہ سب میں ہم سود دیتے ہیں، یہ سود کی وہ قسم ہے جس سے ہم بچ نہیں سکتے، جیسا کہ تصویر حرام ہے، لیکن شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے تصویر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ