سوال (2218)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے آپ کو دم فرماتے، آپ حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو دم فرماتے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا آپ کو دم کرتی مذکورہ بالا روایات اگر درست ہیں تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے،
“هم الذین لا یرقون ولا یسترقون وعلی ربهم یتوکلون”
کیا دم کرنا ناجائز ہے یا توکل کے منافی ہے؟ ان روایات میں تطبیق کیسے ممکن ہے؟

جواب

ان میں ایک تطبيق یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے دم کرنا اور ایک ہوتا ہے دم کروانا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو یا اپنے اہل خانہ کو دم کرنا یہ اس حدیث میں نہیں آتا کیونکہ اس حدیث میں ہے “لا يسترقون” جس کا معنی ہے دم کا مطالبہ کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دم مطالبہ کے بغیر تھا، اور “لا يرقون” والے الفاظ صحیح ثابت نہیں ہیں، صحیح “لا يسترقون” کا لفظ ہے۔

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

تعارض ظاہری کی صورت میں تطبیق بڑی اہمیت رکھتی ہے اس جیسے مسئلہ میں تطبیق، ناسخ ومنسوخ، راجح مرجوح، اجمال و تفصیل کو دیکھا جاتا ہے، یہاں تطبیق ممکن ہے اور تفصیل و توضیح بھی۔
اول: دم کرنا اور کروانا جائز ہے، البتہ دم نہ کروانا افضل ہے۔
دوم: دم کا مطالبہ کرنا، یا غیر شرعی، شرکیہ اور مجہول الفاظ پر مبنی دم کرنا مراد ہے، جو کسی صورت درست نہیں ہے۔
سوم: اس روایت میں “لا يرقون” کی زیادت راوی کا وہم و خطا ہے، توجيه النظر میں ہے۔

“ﻭﺣﻜﻢ ﺑﻮﻫﻢ اﻟﺮاﻭﻱ ﻓﻲ ﺯﻳﺎﺩﺓ ﻭﻻ ﻳﺮﻗﻮﻥ ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺬﻱ ﺛﺒﺖ ﻓﻲ اﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﻭﺻﻒ اﻟﺴﺒﻌﻴﻦ ﺃﻟﻔﺎ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﺪﺧﻠﻮﻥ اﻟﺠﻨﺔ ﺑﻐﻴﺮ ﺣﺴﺎﺏ ﺇﻧﻬﻢ ﻻ ﻳﻜﺘﻮﻭﻥ ﻭﻻ ﻳﺴﺘﺮﻗﻮﻥ ﻭﻻ ﻳﺘﻄﻴﺮﻭﻥ ﻭﻋﻠﻰ ﺭﺑﻬﻢ ﻳﺘﻮﻛﻠﻮﻥ ﻭﻫﺬﻩ اﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﻭﻫﻲ ﻭﻻ ﻳﺮﻗﻮﻥ ﻭﻗﻌﺖ ﻓﻲ ﺇﺣﺪﻯ ﺭﻭاﻳﺎﺕ ﻣﺴﻠﻢ”
[توجيه النظر إلى أصول الأثر:1/ 520،521]

شرح كتاب نقد متون السنة للدميني میں ہے۔

“ﻫﻮ ﻓﺎﻧﻔﺮﺩ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﺮﻭاﻳﺔ (ﻻ ﻳﺮﻗﻮﻥ). ﻓﻬﻲ ﺷﺎﺫﺓ، ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺪ ﺭﻗﻰ، ﻭﺟﺒﺮﻳﻞ ﻋﻠﻴﻪ السلام ﻗﺪ ﺭﻗﻰ، ﻭﺃﻣﺮ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺎﻟﺮﻗﻴﺔ، ﻓﻜﻴﻒ ﻧﻘﻮﻝ: ﺑﺄﻥ ﺫﻟﻚ ﻗﺪﺡ ﻓﻲ اﻟﺘﻮﻛﻞ! ﻓﻬﺬﻩ اﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﺷﺎﺫﺓ”

محدث الباني رحمه الله تعالى نے کہا:

“ﻭﺯاﺩ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻳﺮﻗﻮﻥ ﻭﻻ ﻳﺴﺘﺮﻗﻮﻥ ” ﻭﻫﻲ ﺯﻳﺎﺩﺓ ﺷﺎﺫﺓ ﻛﻤﺎ ﺑﻴﻨﺘﻪ ﻓﻴﻤﺎ ﻋﻠﻘﺘﻪ ﻋﻠﻰ ﻛﺘﺎﺑﻲ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ: ﺭﻗﻢ 254″
[الصحيحة: 244]

محفوظ حدیث صرف ان الفاظ سے ہے:

ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﻳﺪﺧﻞ اﻟﺠﻨﺔ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ ﺳﺒﻌﻮﻥ ﺃﻟﻔﺎ ﺑﻐﻴﺮ ﺣﺴﺎﺏ، ﻫﻢ اﻟﺬﻳﻦ ﻻ ﻳﺴﺘﺮﻗﻮﻥ، ﻭﻻ ﻳﺘﻄﻴﺮﻭﻥ، ﻭﻋﻠﻰ ﺭﺑﻬﻢ ﻳﺘﻮﻛﻠﻮﻥ
[صحیح البخاری: 6472]

دیگر اسانید سے دیکھیے۔
[صحیح البخاری: 5705، 5752, 6541، صحیح مسلم: 218، مسند أحمد: 2448 ،2952 ،3806 ،3819 ،4339 ،18181 ،19913 ، الأدب المفرد: 911، مسند أبی داود الطیالسی: 350]
یہ حدیث کئی اسانید و صحابہ سے مروی ہے، تو دم کرانا جائز اور نہ کروانا افضل ہے اور دم کرنا توکل کے منافی عمل نہیں ہے، جب عقیدہ یہ ہو کہ یہ صرف ایک شرعی سبب ہے، بذاتہ مؤثر نہیں ہے، جب تک رب العالمین کا اذن و حکم شامل نہ ہو، اس لیے بوقت ضرورت دم کروا سکتے ہیں، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ شرکیہ اور مجھول الفاظ و ہندسوں پر مشتمل نہ ہو۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

شرعی دم کرنا اور کروانا جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے۔ البتہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما جو کہ صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ان میں
“هم الذين لا يسترقون وعلى ربهم يتوكلون” وہ لوگ بھی ہیں جو دم طلب نہ کرتے ہوں گے، اور اپنے رب پر توکل رکھتے ہوں گے”
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ [القول المفید علی کتاب التوحید : 1/103] میں فرماتے ہیں:

“قوله: “لا يسترقون”، في بعض روايات مسلم:
“لا يرقون”: ولكن هذه الرواية خطأ، كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية; لأن الرسول صلى الله عليه وسلم كان يرقي، ورقاه جبريل، وعائشة، وكذلك الصحابة كانوا يرقون”

“وہ دم طلب نہیں کرتے ہوں گے، صحیح مسلم کی بعض روایات میں ” لا یرقون” وہ دم نہیں کرتے ہوں گے، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کیا کرتے تھے، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دم کیا، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دم کرتے تھے۔
اور اگر کوئی کامل توکل کی بنیاد پر کسی سے دم طلب نہیں کرتا جو کہ بذاتہ جائز ہے تو اس کا شمار ان ستر ہزار میں ہوگا جو بے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب۔

فضیلۃ الباحث مقصود احمد مدنی حفظہ اللہ