سوال (1937)
کیا دانوں والی تسبیح کرنا جائز ہے؟ بعض اس کو بدعت کہتے ہیں۔
جواب
تسبیح گنتی کا آلہ ہے۔ آلات بدعت نہیں ہوتے ہیں، اب تو جدید ڈیجیٹل تسبیحیں بھی آ گئی ہیں، بدعت یہ ہے کہ عبادت میں حک و اضافہ کر دیا جائے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
بعض لوگوں کا معمول ہے کہ جو بات پسند نہ ہو، اسے جھٹ سے بدعت کہہ دیتے ہیں، بعض صحابہ کرام بعض اذکار گٹھلیوں پر کر لیا کرتے تھے، ان لوگوں کا یہ انداز ہی بدعت ہے، اذکار کی گنتی اور تعداد کو یاد رکھنے کی غرض سے آلہ تسبیح کو بدعت کہنا محل نظر ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اس میں سنت کی دوری بھی ہے، لیکن اس میں دو قباحتیں بھی پائی جاتی ہیں۔
(1) : ہندو کے ساتھ تشبیہ پائی جاتی ہے۔
(2) : اس میں ریاکاری کا پہلو بھی آجاتا ہے۔
یہ میں استدراک نہیں کر رہا ہوں، استدراک کے بجائے اضافہ سمجھ لیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
الشیخ حفظہ اللہ کی بات میں مزید اضافہ شامل کر لیں۔
اصل خیر اور برکت نبی کریم ﷺ کے طریقہ میں ہی ہے، مروجہ تسبیح کو اگرچہ بدعت نہیں کہہ سکتے، لیکن اس میں قباحتیں ضرورت ہیں۔
اس بارے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکہتے ہیں یہ دینی بدعت تو نہیں ہے کونکہ اس کا مقصد شمار کرنا ہی ہے، پھر اس کے عدمِ استعمال پر چند وجوہ بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
(1) : ایسا کرنا نبی کریم ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے، کیونکہ آپ نے پوروں پر تسبیح کی تلقین فرمائی ہے۔
(2) : اکثر اوقات اس میں ریاکاری پائی جاتی ہے، بالخصوص وہ لوگ جو اس کو ہار کی طرح گلے میں لٹکا لیتے ہیں، گویا کہ زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری طرف دیکھو ہم اس تسبیح کے دانوں کے برابر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہے ہیں۔
(3) : بایں صورت غالبا آدمی کا دل و دماغ حاضر نہیں ہوتا اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ صرف منکوں پر اعتماد کر رہے ہوتا ہے اور ان کی آنکھیں ادھر ادھر متوجہ ہوتی ہیں، مقصد اعلیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا یا غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس بنا پر میرے خیال میں افضل یہ ہے کہ آدمی مسبحة پر تسبیح نہ کرے، بلکہ انگلیوں کے پوروں پر تسبیح کرے۔ [مجموعۃ فتاویٰ ورسائل: 240/13]
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
تسبیح کے حوالے سے سنت یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں پر اسے شمار کیا جائے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات کو فرمایا تھا:
اعقدن بالأنامل فإنهن مسئولات مستنطقات
[مسند أحمد:6/ 371 وسنن أبي داود:1501]
اذکار کو انگلیوں کے پوروں پر شمار کرو، کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا۔
بلکہ انگلیوں میں بھی بالخصوص دائیں ہاتھ کے ساتھ تسبیح کرنا افضل ہے، جیسا کہ عبد الله بن عمرو رضى اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُ التَّسْبِيحَ»، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: بِيَمِينِهِ.
[سنن أبي داود:1501]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ آپ دائیں ہاتھ سے تسبیحات شمار فرما رہے تھے۔
اس میں اگرچہ “دائیں” کے اضافے میں اہل علم کے ہاں کلام ہے، لیکن بہرصورت جب ایک ہاتھ سے کرنا ثابت ہے، تو یقینا بائیں کی بجائے آپ دائیں سے ہی کرتے ہوں گے!
لیکن اگر کوئی بائیں ہاتھ پر بھی شمار کرتا ہے، یا اس سے ہٹ کر دانوں والی تسبیح یا کاؤنٹر ڈیوائس یا کوئی موبائل ایپ وغیرہ بھی استعمال کرتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگرچہ بعض اہل علم نے ہاتھوں کے سوا تسبیح وغیرہ کو بدعت قرار دیا ہے، جیسا کہ فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اس پر مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے، لیکن ـ واللہ اعلم ـ ان اہل علم کی بات زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے، جو اس سلسلے میں گنجائش رکھتے ہیں۔
کیونکہ تسبیح کرنا عبادت ہے، لیکن اس کا شمار تو ایک ضرورت ہے، اس حاجت و ضرورت کے لیے کوئی بھی مناسب وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
بالخصوص ان لوگوں کے لیے جنہیں کچھ ذہنی مسائل ہوتے ہیں اور وہ ہاتھوں پر شمار نہیں کر پاتے!
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“التسبيح بالمسبحة تركه أولى وليس ببدعة لأن له أصلا وهو تسبيح بعض الصحابة بالحصى ، ولكن الرسول صلى الله عليه وسلم أرشد إلى أن التسبيح بالأصابع أفضل”. [اللقاء المفتوح 3/30]
یعنی آلاتِ تسبیح کا عدم استعمال بہتر ہے، لیکن اس کو بدعت کہنا مناسب نہیں۔
البتہ تسبیحات کو ہاتھوں میں یا گلے میں لٹکائے رکھنا، اسی طرح باتیں کرتے ہوئے بھی تسبیح کے دانے یا منکے پھیرتے رہنا، یہ درست عمل نہیں!
زبان کو ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رکھنا مقصد ہے، لیکن زبان کو ذکر سے تر رکھنے کے لیے اسے شمار کرنا ضروری نہیں ہے۔ بلا حساب و کتاب جس قدر توفیق ملے، اللہ کا ذکر کرتے رہیں!
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ