سوال (2002)

کیا اس طرح کوئی بھی چیز سیل کرنا یا خریدنا درست ہے کہ ایک شخص فیصل آباد میں بیٹھا ہے، میں اس سے کسی بھی چیز مثلاً: کپڑوں کی تصاویر منگواتا ہوں اور اسے لوگوں کو دیکھا کر سیل کرتا ہوں، جبکہ اصل چیز میری ملکیت میں نہیں ہے، وہ دوسرے بندے کے پاس ہے ، لیکن ساتھ شرط ہوتی ہے کہ آپ اپنا پارسل کھول کر چیک کریں، اگر وہ نہ ہو تو آپ واپس کر سکتے ہیں؟

جواب

یہ ڈراپ شپنگ کے نام سے معروف کاروبار ہے، جو کہ بالکل درست نہیں ہے۔ اس پر کئی ایک سوالات و جوابات میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
پارسل کھول کر چیک کرنے کی سہولت دینا یا نہ دینا یہ ایک اضافی سہولت ہے، ڈراپ شپنگ کاروبار کی بنیاد ہی درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز آگے فروخت کی جاتی ہے، جس کا انسان مالک ہی نہیں ہے جو کہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ”. [ترمذي:1232]

’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو خروخت نہ کرو‘‘۔

مزید فرمایا:”منِ ابتاع طعامًا فلا يبعْه حتى يستوفيَهُ” [صحيح البخاري:2136]

’جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے‘۔
بعض اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ شاید ڈراپ شپر خریدار سے آرڈر لے کر سپلائر سے چیز اپنے پاس منگوا کر آگے فروخت کرتا ہے، اگر ایسے ہو تو اس خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں، لیکن حقیقت میں ایسے ہوتا نہیں۔ ڈراپ شپنگ ویب سائٹس پر یہ بات جلی حروف اور نمایاں طور پر لکھی ہوتی ہے کہ آپ نے صرف اپنی دکان کھول کر آرڈرز لینے ہیں، پراڈکٹس خریدنا اور انہیں گاہک تک پہنچانا یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

اس مسئلے پر مزید غور و خوض کیا جائے۔ دنیا کے بیشتر کاروبار اسی طرح ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تاجر لاہور میں بیٹھ کر فون پر گھی کی گاڑی گوجرانوالہ سے فیصل آباد بھیجتا ہے، جس کےلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ گاڑی کو پہلے لاہور منگوائے، پھر فیصل آباد بھیجے، دیکھا جائے کہ حدیث کا مقصود کیا ہے۔ حدیث کا مقصود دھوکا دہی کی روک تھام ہے۔ یہ مقصود اگر دیگر ذرائع سے حاصل ہو جاتا ہے تو ایسے کاروبار کا جواز ہونا چاہیے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

آپ کی بات بجا ہے، جو حقیقی کاروبار کرنے والے ہیں، ان کے حوالے سے اس پر مزید غور و خوض کیا جا سکتا ہے. لیکن ڈراپ شپنگ جیسے کاروبار کا بزنس ماڈل ہی ہوا میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس میں لوگوں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ آپ کو چیزیں خود سے خریدنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ مالک بن کر آرڈر لائیں، باقی کام ہم کریں گے۔ حالانکہ وہ شخص مالک ہے ہی نہیں!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

دیکھیں آپ ڈراپ شپنگ میں کچھ بھی کرلیں ، جب تک آپ کلیم کر رہے ہیں کہ یہ چیز میری ہے، وہ چیز آپ کی کسٹڈی اور آنر شپ میں ہونا ضروری ہے، آپ کا دعویٰ ہے کہ یہ چیز میں بیچ رہا ہوں تو آپ کا قبضہ اور ملکیت دونوں چیزیں ہونی چاہیے، جیسا کہ اوپر صحیح البخاری کی دو روایتوں کا حوالہ دیا گیا ہے ، باقی ڈراپ شپنگ کی قباحتوں سے اس صورت میں بچا جا سکتا ہے کہ آپ یہ دعویٰ نہ کریں کہ یہ میری چیز ہے، اپنی فیس بک یا کہیں بھی اپنے آپ کو سروس پرووائیڈر شو کریں کہ جو چیز میں بیچ رہا ہوں ، وہ چیز میری نہیں ہے ، کہیں سے لے کر وہ چیز میں آپ کو پرووائیڈ کرواؤں گا، میں یہ سروس چارجز لوں گا، صراحت کردیتا ہے کہ یہ میری چیز نہیں ہے تو اس کام میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ