سوال (2223)

دیوبندیوں کے اندر بھی اگرچہ شرک وغیرہ پایا جاتا ہے تو کیا ان کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے، جبکہ ان کے اندر وحدت الوجود کا عقیدہ ہو اور مردہ سے مدد مانگنے کا عقیدہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں زندہ ہونا اور اسی طرح اور بھی کچھ ان کے گمراہ کن عقائد ہیں، کیا اس کے باوجود ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز ہو جائے گی؟

جواب

بدعت مکفرہ یعنی جس کی بدعت کفر اکبر کے درجہ کی ہو کے مرتکب کے پیچھے نماز بالاتفاق نہیں ہوتی ہے۔ بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے، مگر اتباع سنت کا تقاضا ہے کہ ان کہ پیچھے بھی نماز نہ پڑھی جائے۔
رہا مسئلہ سیدنا عثمان رضی الله عنہ کا باغیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں تو آج بھی ویسے حالات ہوں تو اس صورت میں پڑھی جا سکتی اور عام حالات میں نہیں پڑھی جائے گی۔
کچھ تفصیل پیش خدمت ہے جو کئی سال پہلے ہم نے مجموعہ من فضلاء الدعوة السلفية میں لکھی تھی
قبلہ رخ تھوکنے کی ممانعت موجود ہے۔
[دیکھیے صحیح بخاری: 1213، صحیح مسلم: 547]
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے والے امام کے بارے فرمایا تھا “لا یصلی لکم” یہ تمہیں نماز نہ پڑھائے، اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں “انك آذیت الله ورسوله” کہ تو نے الله اور اس کے رسول کو اذیت و تکلیف دی ہے۔
[سنن ابوداود: 481 سندہ حسن لذاتہ]
یہ حدیث شرک و کفر سے ہلکے جرم پر نماز میں امامت نہ کروانے پر بین دلیل ہے اور یہ قبلہ رخ تھوکنے والاعمل الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف کا سبب بننے ولا عمل ہے، جس کی بنیاد پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کے امام کو حکماً امامت سے معزول کروادیا تو شرک و کفر پر مبنی عقائد و نظریات رکھنے والا امام “جو تاویل کیے بغیر کسی بھی شرک کی قسم میں مبتلا ہے” جب کہ اس کی اپنی نماز بھی عقیدہ کی خرابی کی وجہ سے قبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھنا جائز ہوگی، وہ کس طرح الله تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند ہوگا۔ کیا ہم اس کفر و شرک میں مبتلا امام کے پیچھے نماز ادا کر کے اسے عزت نہیں دے رہے اس کے ان کتاب وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ عقائد کے خلاف جو عقائد ہیں ان کی تائید نہیں کر رہے، کیا غلط عقائد کا حامل امام کتاب وسنت کی روشنی میں امامت کا اہل ہے ، کیا “من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد” [صحیح مسلم: 1718] کی روشنی میں اور “من أحدث فی دیننا ما لیس فیہ فھو رد”۔[شرح السنہ: 103 صحیح] کی رو سے ان مقلدین کے عقائد جدیدہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے عقائد و نظریات سے موافق ہیں یا مخالف جب ہیں بھی مخالف تو پھر یقینا مردود ہیں کہ نہیں کیا ایسے عقائد کے حامل کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا توحید و سنت سے محبت و عقیدت کی دلیل ہے، کیا عقیدہ الولاء والبراء ایسوں کی اقتداء کی اجازت دیتا ہے، امت کے جمھور سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ بد عقیدہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
( یعنی بدعت مکفرہ جو کفر اکبر کے درجے کو پہنچے اور دوسرے اہل بدعت کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے اتباع سنت، تعامل سلف صالحین کے سبب اجتناب کریں، جیسے ان کی مجالس میں شرکت سے سلف صالحین نے اجتناب کرنے کا فرمایا اور خود بھی عمل کیا
( یاد رہے سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے عہد میں محاصرے جیسی صورت یا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہو وہاں اضطراری حالت میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا جواز ہے مطلقا ہرگز نہیں ہے)
یہ عبدالله بن عمر رضی الله عنه کی سنت سے محبت دیکھیے کہ موذن نے ظہر یا عصر کی اذان میں تثویب کہہ دی یعنی الصلوة خیر من النوم تو ابن عمر رضی الله عنه فرماتے ہیں اخرج بنا فان ھذہ بدعة کہ ہمیں یہاں سے باہر لے جاؤ پس بلاشبہ اذان میں یہ تثویب بدعت ہے [سنن ابوداود: 538]
ابن عمر رضی الله عنه تو بدعتی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے تھے [سنن ترمذی: 2152] وغیرہ
اسی طرح بدعتی کی تعظیم اسلام کو گرانے میں مدد کرنا ہے حدیث دیکھیے [الشریعہ للآجری: 2040]
اس کے علاوہ اس تعلق سے میں کئی آثار اس مجموعہ میں پوسٹ کر چکا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت “لئن اشرکت” کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی شرک کیا تو آپ کے عمل ضائع کر دیے جائیں گے القرآن۔ اسی طرح کی دیگر آیتیں۔
آخر پر صرف ایک بات لکھوں گا اہل سنت کے امام امام اسماعیل بن محمد بن فضل الاصبہانی رحمه الله کیا خوب کہا آپ کہتے ہیں:

“و أصحاب الحدیث لا یرون الصلوٰۃ خلف أھل البدع لئلا یراہ العامة فيفسدون بذلك”

اور اصحاب الحدیث اہل بدعت کے پیچھے نماز ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ کہیں عام لوگ یہ سلسلہ دیکھ کے فساد میں مبتلا نہ ہو جائیں یعنی عوام الناس گمراہ نہ ہو جائیں ( کہ وہ سبھی کو اہل توحید وسنت اہل حق سمجھنے لگیں اور گمراہ ہو جائیں عقائد خراب کر لیں جس طرح ان کے اپنے خراب ہیں) [الحجة فى بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة: 2/ 508]
اس لیے جس کے عقائد ونظریات کتاب وسنت اور صحابہ کرام و سلف صالحین سے نہیں ملتے اس کی اقتداء میں نماز ایک تو توحید وسنت اور سلف صالحین سے محبت کے ثبوت میں نہیں پڑھنی دوسرا کہ ازروے کتاب وسنت اہل شرک کے بلا تاویل شرکیہ اعمال عنداللہ مقبول نہیں ہیں اور یہ لوگ باری تعالیٰ کو پسند بھی نہیں الا کہ یہ سچی توبہ کر کے موحد و متبع سنت بن جائیں جس طرح صحابہ کرام اور سلف صالحین تھے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل:
شیخ محترم بعض لوگ کہتے ہیں کہ سعودیہ کے تمام علماء جیسے شیخ ابن باز ابن عثیمین اور علامہ البانی اور دیگر شیخ صالح الفوزان اور جتنے بھی سعودیہ کے بڑے بڑے علماء ہیں وہ سب ان دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں “حالانکہ ان کے عقائد صحیح نہیں ہیں” کہتے ہیں پڑھ لینی چاہیے اور پاکستان کے بھی کئی علماء اجازت دیتے ہیں وہ کہتا ہے کہ میں نے پاکستان کے بھی کئی علماء سے پوچھا ہے جیسے قاری صہیب صاحب ہیں وہ بھی اجازت دیتے ہیں۔
جواب:
سعودی مشائخ فروعی مسائل میں سختی نہیں کرتے ہیں، البتہ عقیدہ میں وہ بہت سخت ہیں، عقیدہ کی غلطی برداشت نہیں کرتے اور فروعی کو پوائنٹ آؤٹ نہیں کرتے ہیں، یہ اجازت ان کے لیے ہے، جن کا عقیدہ درست ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سعودی عریبیہ والوں کو شاید برصغیر کے اہل بدعت و مقلدین کے عقائد و بدعات کا بمقابل عرب کے احناف و حنابلہ وغیرہ کے صحیح طرح سے ادراک نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

نماز صحیح العقیدہ اور متبع سنت امام کی اقتدا میں ہی ادا کرنی چاہیے، ایسا امام جو کفریہ و شرکیہ عقائد کا حامل ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے، بالخصوص جب ایسے امام کو اس کے کفریہ و شرکیہ عقائد کے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہو، باوجود نصیحت کے وہ اپنے گمراہ کن عقائد پر قائم رہے، تو ایسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں قریبی کسی دوسری مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنی چاہیے۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“إذا كان إمامهم ليس بكافر، وإنما عنده بعض البدع التي لا تخرجه من الإسلام، فلا مانع من الصلاة معهم، ونصيحتهم۔۔۔
أما إن كان إمامهم يتعاطى ما يوجب كفره، كالذي يستغيث بالرسول ﷺ، أو يدعوه من دون الله، أو يستغيث بالأموات، وينذر لهم، ويذبح لهم، هذا كفر وضلال، هذه أمور كفرية، لا يصلى خلفه؛ لأن هذه الأمور من أمور الكفر بالله والشرك بالله
وهكذا إذا كان إمامهم يعتقد اعتقادات كفرية، كأن يعتقد أن غير الله يتصرف في الكون من الأولياء، وأنهم يدبرون هذا العالم من الأولياء، كما يعتقده بعض الصوفية، أو يعتقد ما يعتقده أصحاب وحدة الوجود، من أن الخالق والمخلوق واحد، وأن الخالق هو المخلوق، والعبد هو المعبود، ونحو ذلك من المقالات الخبيثة الملحدة، فهذا كافر، ولا يصلى خلفه، أما إذا كان بدع دون الكفر، فإن هذا يصلى خلفه.
مثل بدعة المولد، وليس فيها كفر، ومثل بعض البدع الأخرى التي يفعلها الصوفية وليست بكفر، بل دون الكفر، فلا تمنع من الصلاة خلفه”

جب امام کافر نہ ہو اگرچہ بعض غیر مکفرہ بدعات کا حامل ہو تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے، تاکہ وعظ وتبلیغ کا کام جاری رہے۔۔۔
اور اگر امام کفریہ عقائد کا حامل ہو جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنا، یا اللہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کرنا، یا مردوں سے مدد مانگنا، اور ان کے نام نذر ونیاز دینا، ان کے لئے جانور ذبح کرنا یہ کفریہ کام ہیں لہذا ایسے امام کے پیچھے نماز درست نہیں، ایسے ہی اولیاء اللہ کے بارے عقیدہ رکھنے والا کہ وہ زمین وآسمان کے معاملات کو چلا رہے ہیں جیسا کہ بعض صوفیہ کا عقیدہ ہے، یا عقیدہ وحدة الوجود کا حامل انسان، خالق اور مخلوق، عابد اور معبود دونوں ایک ہی ہیں، اسی طرح کے دیگر باطل نظریات کے حامل انسان کافر ہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں، اور اگر بدعت غیر مکفرہ ہے تو ایسے امام کی اقتدا میں نماز جائز ہے، جیسے میلاد النبی کفریہ بدعت نہیں، ایسے ہی دیگر بدعات جو کفر کی حد تک نہیں پہنچتی تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔
اللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث مقصود احمد حفظہ اللہ

بارك الله فيكم
میں نے غیر درست کہیں نہیں کہا ہے ، میرے نزدیک بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بہتر و اولی ہے اور ہر لحاظ سے خیر کا باعث بھی جیسا کہ تفصیل ذکر کر چکا ہوں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ