سوال (2137)

ایک صاحب ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں، انہوں نے نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، ان کا ایک دوست جو کہ عیسائی تھا، وہ فوت ہو گیا ہے، وہ پوچھ رہے ہیں، کیا وہ ان کی تدفین وغیرہ اور جو ان کی دعا وغیرہ ہوتی ہے، اس میں شرکت کر سکتے ہیں یا نہیں اگر وہ شرکت نہیں کرتے تو ان کے کچھ دوست ناراض ہو جائیں گے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

اس میں کوئی مجبوری نہیں ہے کہ بندے کو اجازت دی جائے کہ آپ غیر مسلموں کے جنازوں میں شریک ہوں، کل کو کہا جائے گا کہ کرسمس ڈے اور ویلنٹائن ڈے منانے کی جازت چاہیے کیونکہ وہ ناراض ہو رہے ہیں، جب اللہ تعالٰی نے آپ کو ہدایت دے دی ہے تو آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، دین حنیف پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ سو مرتبہ مرنے کے بعد زندہ ہو کر کہیں کہ آپ اسلام کو چھوڑ دیں تو میں اس کو نہیں چھوڑوں گا، بجائے گنجائش دینے کے اسی تعلیم کو عام کرنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

الشیخ المحترم اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ الولاء والبراء کے بغیر سمجھتے ہیں کہ وہ موحد ہو گئے ہیں اور ہدایت کی اس کے بنا تکمیل ہو جاتی ہے، اور شاید اسکی وجہ بڑھتی ہوئی افکاری یلغار ہے، جس نے اسلام کی اصل شکار کو بگاڑ رکھا ہے اور عموما داعین اسی منہج و اسلوب دعوت پر گامزن ہیں الا من رحم ربی!
اسی لیے جس انداز میں سوال کیا گیا گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں، شیخ محترم جو مثالیں آپ نے دیں وہ کب مسئلہ رہی ہیں، جب اسلامی جماعتیں کفار کے ایونٹس پر انہیں مبارک باد دیتی نظر آئیں گی تو عوام ان کو کیا خاک مسائل میں شمار کرے گی۔
اللہ المستعان۔۔۔
ضرورت تو ملت ابراھیمی کی دعوت و توضیح ہے، میں نے ایک جگہ ایک ویڈیو پر کمنٹ لکھا جس میں روافض کے بڑوں کو شام گریباں کے کرتا دھرتاؤں کو بعض منتسبین الی اھل السنہ مبارک باد پیش کر رہے تھے گلے مل رہے تھے۔
قلت ما قلت۔
اس پر ایک شخص نے لکھا کہ
“آپ کو معاشرے میں امن پسند نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں کہ مذاھب آپس میں ایک دوسرے کی سرین میں ادخال کرتے رہیں یا ابو اجہل الناس”
علیہ ما یستحق۔۔۔
جب معاشرے میں یہ سوچ فکر ہے، تو یہ چیزیں انتہائی معمولی لگنے لگتے ہیں ۔۔۔
پھر من لم یکفر الکافر فہو الکافر والی عبارتیں غیر مانوس اور پر تشدد معلوم ہوتی ہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ