سوال (1001)
کیا فرض نماز سواری پر ادا کی جا سکتی ہے؟
جواب
بغیر عذر کے سواری پر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر ایسی سواری ہے جس سے زمین پر اترنا ممکن ہی نہیں تو اس پر پڑھ سکتے ہیں مثلا بحری جہاز وغیرہ۔ مزید مندرجہ فتویٰ ملاحظہ ہو۔
صلاةُ الفريضةِ على الراحلةِ لا تجوزُ صلاةُ الفريضةِ على الراحلةِ من غيرِ عُذرٍ، وذلك باتِّفاقِ المذاهبِ الفقهيَّة الأربعة: الحنفيَّة، والمالكيَّة، والشافعيَّة، والحنابلة، وحُكي الإجماعُ على ذلك،
الأدلَّة:
أوَّلًا: من الكِتاب
قال الله تعالى: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [البقرة: 238-239]
وَجْهُ الدَّلالَةِ:
أنَّ معنى الآيةِ: إذا وقَع الخوفُ فليصلِّ الرجلُ على كلِّ جِهةٍ قائمًا أو راكبًا
ثانيًا: من السُّنَّة
عن ابنِ عُمرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهما قال: “كان النبيُّ عليه السلام يُصلِّي في السفرِ على راحلتِه، حيث توجَّهتْ به، يُومِئ إيماءً صلاةَ اللَّيلِ، إلَّا الفرائض، ويُوتِرُ على راحلتِه”
ثالثًا: من الآثار
1 : عن ابنِ عُمرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهما قال: “إذا اختَلَطوا – يعني في القِتالِ – فإنَّما هو الذِّكرُ وأشارَ الرأسِ”
2:عن ابنِ عُمرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهما، قال: “فإنْ كان خوفٌ أشدُّ من ذلك صَلَّوْا رِجالًا قِيامًا على أقدامهم، أو رُكبانًا مستقبلي القبلةِ وغيرَ مستقبليها” وفي روايةٍ لمسلم: أنَّ ابنَ عُمرَ قال: “فإنْ كان خوفٌ أكثرُ من ذلك فصلِّ راكبًا، أو قائمًا، تومئ إيماءً”
الصَّلاةُ على السَّفينةِ تجوزُ صلاةُ الفريضةِ على السَّفينةِ في الجملةِ.
الأدلَّة:
أوَّلًا: من السُّنَّة
عن ابنِ عُمرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهما قال: “سُئِل النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن الصَّلاة في السَّفينة؟ فقال: صَلِّ فيها قائمًا إلَّا أن تخافَ الغرقَ”
ثانيًا: من الإجماع
نقَلَ الإجماعَ على ذلك: النوويُّ، وابنُ الملقِّن، والصنعانيُّ، والشوكانيُّ
ثالثًا: أنَّ ذلك إنَّما يجوزُ للحاجةِ إلى ركوبِ البحرِ، وتعذُّرِ العدولِ في أوقاتِ الصَّلاةِ عنه
الفَرْعُ الرابع: الصَّلاةُ في الطَّائِرَةِ
تجوزُ صلاةُ الفريضةِ على الطائرةِ، مع القيامِ بأركانِها حسَبِ الاستطاعةِ، ويدورُ معها حيثُ دارتْ مِن أجلِ استقبالِ القِبلةِ، وهذا اختيارُ ابنِ باز، وابنِ عُثَيمين
الأدلَّة:
أوَّلًا: من الكِتاب
قال الله تعالى: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ [التغابن: 16]
ثانيًا: من السُّنَّة
عن أبي هُرَيرَة رَضِيَ اللهُ عَنْه، قال: قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: “إذا أمرتُكم بأمرٍ فأتُوا منه ما استطعتُم”
ثالثًا: قياسًا على هيئةِ الصَّلاةِ على السَّفينةِ
فضیلۃ الباحث حافظ طلحہ علوی حفظہ اللہ
سوال: کیا سواری پر فرض نماز ہو جاتی ہے؟
جواب: اگر سواری سے اترنا ناممکن ہو، جیسا کہ بحری جہاز ہے یا ہوائی جہاز ہے، ممکن ٹرین کا سفر بھی لمبا ہو، قضاء کا خطرہ ہو تو پھر ضرورت کے تحت مضطر ہو کر سواری پر فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے، اس پر فتویٰ ہے، اس پر کچھ آثار بھی ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: ایک شخص فجر کا وقت شروع ہونے سے قبل بس میں شروع کرتا ہے اور بس کوئی سٹاپ نہیں کرتی یہاں تک کے فجر کا وقت گزر جاتا ہے, کیا وہ بس میں بیٹھے بیٹھے فجر کی نماز اپنے وقت میں ادا کر سکتا ہے؟
جواب: اول تو مکمل کوشش ہو کہ ایسے اوقات میں سفر ہی نا کریں جس میں نمازوں کا ضیاع ہو۔ لیکن اگر سفر کرنا مجبوری ہی ہو تو کوشش کریں کہ درمیان میں گاڑی رکوا کر پانچ دس منٹ میں فجر پڑھ لیں۔ لیکن اگر یہ بھی ممکن نہیں اور فجر کا پورا وقت ہی سفر میں جائے گا، نماز کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے تو پھر بس میں نماز پڑھ لیں جیسے ممکن ہو۔ یہ عذر کی صورت ہے۔
لا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا (البقرہ: 286)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں برکت فرمائے، اللہ جزائے خیر سے نوازے۔
میں اس مسئلے میں تھوڑی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحیح بخاری و غیرہ میں حدیث مبارکہ موجود ہے، نفلی نماز کے علاوہ، اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری پہ فرض نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
اور دیگر کتبِ احادیث کی روایات کے مطابق، اول نماز میں، یعنی شروع نماز میں، سواری کا رُخ، اس کی سمت جو ہے، وہ قبلہ ہو، قبلہ کی طرف ہو، بعد میں وہ جس جانب چاہے مر جائے، تو نفلی نماز میں ہے۔
فرضی نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری پر پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
اس سے اگلی صورت یہ ہے کہ اگر جہاز ہے، بحری جہاز ہے یا ریل گاڑی ہے، اور اس میں قیام ہو سکتا ہے، یعنی نمازی کھڑا ہو سکتا ہے، کیونکہ نماز میں کھڑا ہونا ضروری ہے، اور قبلہ سمت ہونا بھی ضروری ہے، فرض نماز کے لیے۔
اگر یہ دونوں صورتیں موجود ہیں — قیام اور قبلہ سمت — یعنی اتنی دیر تک گاڑی معلوم ہے کہ یہ میری نماز کے مکمل ہونے تک گاڑی قبلہ سمت ہی رہے گی، تو وہ فرض نماز پڑھ لے، جیسا کہ شیخنا مفتی عبدالستّار حماد حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فتاویٰ میں لکھا ہے، اور دیگر اہل علم کا بھی یہی رجحان اور موقف ہے، کہ قیام کر سکتا ہو، سواری کا جو رُخ ہے وہ قبلہ سمت ہو، اس وقت تک رہے کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لے، تو اس صورت میں پڑھ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، فرض نماز سواری پر نہیں پڑھی جا سکتی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل: اس میں سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو سواری جاندار تھے اور اس کا رخ جس طرف بھی ہوجاتا (یا سیدھا ہی رہ سکتا تھا) لیکن آج کے دور کی سواریاں (کاریں، بسیں، ویگن وغیرہ) کا اسٹئیرنگ تو ڈرائیور کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کچھ دور جاکر (100، 200 یا 500 میٹر وغیرہ) بالضرور مڑ جائے گا تو کیا ایسی صورت میں نفلی نماز پڑھنا جائز ہے؟
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
جواب: ہم نے صرف مسئلہ بتایا ہے، یہ نہیں ترغیب دی کہ سواری پر نفل پڑھیں، باقی بس ابتدا میں قبلہ رخ ہونا ضروری ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ