سوال (2037)

کیا امام کی قراءت کے دوران مقتدی پر سورۃ فاتحہ پڑھنا حرام ہے؟ جیسا کہ یہ فضیلۃ الشیخ علامہ صالح الفوزان رحمہ اللہ کی ویڈیو ملاحظہ ہو ۔ ذیل میں لنک دیا جاتا ہے؟
https://www.facebook.com/share/r/kL8V29RisvtAM9jY/?mibextid=xCPwDs

جواب

غیر متفق تماما ، قراءة الفاتحة واجبة، اذا لم يقرء الفاتحة. وجب عليه اعادة الركعة.
(مکمل طور پر غیرمتفق، سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے، جب کوئی سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی رکعت پڑھے گا تو اس پر اس رکعت کا دہرانا واجب ہے۔)

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

ویڈیو صحیح ہے، البتہ سلفی منھج کے اعتبار سے فتویٰ غلط ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی شیخ غلط نہ کہیں تو بہتر ہے، یہ کہہ لیں کہ یہ شیخ صاحب کا اپنا فہم و اجتہاد ہے، جو ہمارے نزدیک صائب نہیں ہے، جو عرب مشائخ جہرا کو سنت نہیں کہتے ان کے موقف کو تفصیل سے پڑھنا چاہیے، جیسے عمل ابن عباس رضی الله عنہ حدیث صحیح مسلم پر وہ کیا توجیہ وتفھیم رکھتے ہیں، باقی ہمارے علم و فہم کے مطابق نماز جنازہ کی قراءت جہری اور سری دونوں طرح جائز ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یہاں جنازہ کی بحث نہیں ہے، بلکہ عام نمازوں میں جہراً قراءت کے بارے میں بحث ہو رہی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

فاتحہ ہر رکعت میں فرض ہے، خواہ امام کے ساتھ ہوں یا انفرادی نماز پڑھ رہے ہوں۔ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔
[كتاب القراءة خلف الإمام : 121]

صَلَّى بِنَا رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يَجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، قَالَ: فَالْتَبَسَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «هَلْ تَقْرَأُونَ مَعِي؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ؛ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہری نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا آپ میرے ساتھ قرار کرتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ ایسا نہ کیا کریں البتہ سورة فاتحہ (ام الکتاب) پڑھا کریں کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں فاتحہ نہ پڑھے۔
[سندہ حسن]ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوا

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

الحديث مختلف فيه و الراجح ضعفه
فحديث عبادة الذي تشير إليه هو قوله-رضي الله عنه-: كنا خلف النبي-صلى الله عليه وسلم- في صلاة الفجر، فقرأ، فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال: لعلكم تقرؤون خلف إمامكم؟ قلنا: نعم يا رسول الله. قال: لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب؛ فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها. وقد رواه أحمد، وأبو داود، والترمذي، وغيرهم.
واختلف أهل العلم في تصحيحه وتضعيفه، وممن ضعفه: الإمام أحمد؛ جاء في المحرر في الحديث-تعليقا عليه- ما نصه: رواه أحمد، وأبو داود، (والترمذي، وحسنه، وابن حبان، والدارقطني وقال: (إسناد حسن)، وصححه البخاري، وتكلم فيه أحمد، وابن عبد البر، وغيرهما). اهـ.
وقال ابن قدامة في المغني: وحديث عبادة الآخر، لم يروه غير ابن إسحاق، كذلك قاله الإمام أحمد، وقد رواه أبو داود، عن مكحول، عن نافع بن محمود بن الربيع الأنصاري. وهو أدنى حالا من ابن إسحاق؛ فإنه غير معروف من أهل الحديث. اهـ.
وممن ضعفه أيضا: الشيخ/ الألباني في السلسلة الضعيفة؛ حيث قال فيها: وأما حديث عبادة: فلا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب؛ فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها). فهو ضعيف بهذا اللفظ؛ له ثلاث علل، كما شرحته في “ضعيف أبي داود” (146 – 147)، وإنما صح مختصرا بلفظ: (لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب). أخرجه الشيخان، وغيرهما. اهـ.
وقد تكلم ابن معين على أحد رواة هذا الحديث وهو ابن إسحاق؛ ففي تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي: وقد قال مالك وهشام بن عروة وغيرهما: ابن إسحاق كذاب. وقال يحيى بن معين: ليس بحجة. اهـ.
و لا يُعقل أن يكون هناك اختلاف كبير بين الفقهاء مع وجود مثل هذا الحديث الفاصل

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

یعنی آپ نے دوسروں کے سہارے ضعیف کہہ دیا ہے، ابن اسحاق پر کذاب کی جرح اصطلاحی جرح نہیں ہے نہ ہی اس کاتعلق روایت حدیث کے ساتھ ہے نہ ہی اسے ائمہ محدثین نے قبول کیا ہے، اس پر میں نے الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل کی مراجعت میں تعلیق لگا رکھی ہے، صرف ایک حوالہ وتوضیح ملاحظہ فرمائیں۔
امام ابو زرعہ الدمشقی نے کیا خوب خبر دی:

ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺭﺟﻞ ﻗﺪ ﺃﺟﻤﻊ اﻟﻜﺒﺮاء ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻋﻠﻰ اﻷﺧﺬ ﻋﻨﻪ، ﻣﻨﻬﻢ: ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻭﺷﻌﺒﺔ، ﻭاﺑﻦ ﻋﻴﻴﻨﺔ، ﻭﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻭﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻭﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻭﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﻣﻦ اﻷﻛﺎﺑﺮ: ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺐ، ﻭﻗﺪ اﺧﺘﺒﺮﻩ ﺃﻫﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﺮﺃﻭا ﺻﺪﻗﺎ، ﻭﺧﻴﺮا، ﻣﻊ ﻣﺪﺣﺔ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ ﻟﻪ۔
ﻭﻗﺪ ﺫاﻛﺮﺕ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻗﻮﻝ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺃﻧﺲ ﻫﺬا، ﻓﺮﺃﻯ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﻟﻴﺲ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ، ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻷﻧﻪ اﺗﻬﻤﻪ ﺑﺎﻟﻘﺪﺭ
[تاریخ ابی زرعہ الدمشقی : ص : 538،537]

کبار ائمہ حفاظ نے ابن اسحاق کی مطلقا توثیق کی ہے، ھشام بن عروہ ائمہ علل و نقاد میں سے نہیں نہ ان کا یہ میدان رہا ہے، ایک بحث یہ بھی ہے کہ اقران کی جرح ویسے بھی قبول نہیں کی جاتی کچھ وجوہ سے ، اور جارح کی جرح کا سبب معلوم کرنا ضروری ہے۔
اس کے شواہد بھی معتبر ہیں

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

والمعول عليه فی الاصل حدیث عبادة المشهور لاصلوة لمن لم يقرء بفاتحةالكتاب. [البخارى] وفي رواية البيهقى.خلف الامام.
[ونرى بانه لا يخفى عليكم هذا]

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

بارک اللّٰہ فیکم
یہ بحث ایک جگہ مرتب مل گئی تھی، اس لیے پیش کر دی، ورنہ ابن اسحاق کے بارے میں اقوال وغیرہ پہلے بھی دیکھے تھے۔ ابھی بھی دیکھے ہیں۔ مجھے امام احمد کا قول ان کے متعلق بہتر معلوم ہوا ہے کہ مغازی میں تو معتبر ہیں لیکن احکام وغیرہ میں نہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

بارك الله فيكم
اخی الفاضل الکریم ایسا بالکل بھی نہیں ہے، آپ امام ابن اسحاق پر مکمل دراسہ و سبر کریں تب معلوم ہو گا کہ وہ روایت حدیث میں صدوق اور سیر و مغازی میں ثقہ حجہ ہیں، صدوق راوی کی روایات پر صحت کا غلبہ ہو اور اخطاء کم ہوں تو اس کی روایت سے ائمہ محدثین احتجاج کرتے تھے الا کہ اس کی روایت ثقات حفاظ کے خلاف اور شاذ نہ ہو۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ