سوال (1965)
عن عائشة، قالت: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر أن يصلي بالناس في مرضه، فكان يصلي بهم، قال عروة: فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة فخرج، فإذا أبو بكر يؤم الناس فلما رآه أبو بكر استأخر، فأشار إليه: أن كما أنت، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم حذاء أبي بكر، إلى جنبه، فكان أبو بكر يصلي بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس يصلون بصلاة أبي بكر.
اس حدیث کے متعلق پوچھنا تھا کہ کیا لوگ عارضی امام کی اقتداء کر سکتے ہیں؟ اور یہ بھی بتائیں کہ کیا خود امام لیٹ آنے کی صورت میں عارضی امام کے پیچھے کھڑا ہوگا؟
جواب
میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مقام حاصل تھا، آپ کو حکم الٰہی تھا، اس لیے امامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری تھی، اس لیے آپ امامت کروائی ۔جیسا کہ درج بالا روایت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء لوگ کر رہے تھے، لہذا اس لیے لوگ عارضی امام کی اقتداء کر سکتے ہیں، اس طرح یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نماز پڑھی تھی، اس لیے اگر امام لیٹ ہوگیا ہے تو وہ پیچھے ہی کھڑا رہے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدنا عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی۔ یہی اقرب الی الصواب ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ