انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، جدید ٹولز کا استعمال، گوگل سرچ سے مدد لینا، پی ڈی ایف کتابوں سے استفادہ کرنا اور مکتبہ شاملہ وغیرہ کی مدد سے تلاش کرنا، ایک وقت تھا یہ سب چیزیں معیوب سمجھی جاتی تھیں۔
کیونکہ اس وقت علمائے کرام اور محققین کی اکثریت براہ راست روایتی انداز سے تحقیق کرتی تھی.. اب دس پندرہ سالوں میں چیزیں اتنی بدل چکی ہیں جدید ٹولز باقاعدہ ایک معتبر وسیلہ اور ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔
اور ایک ایسی نسل سامنے آرہی ہے جن کا بحث و تحقیق کے روایتی طریقوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دو میں سے کسی ایک رستے کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
اس وقت نوجوانوں کی یہ صورت حال ہے کہ کرتے وہی ہیں جسے معیوب سمجھتے ہیں، مختلف لوگوں کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ کسی بھی موضوع پر انٹرنیٹ کی مدد سے مطالعہ کرتے ہیں، لیکن مہارت نہ ہونے کے سبب نہ اس میں کتابوں والا ٹھہراؤ ہوتا ہے اور نہ ڈیجیٹل سہولیات سے حاصل ہونے والی کوئی خوبی! دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کتابیں کھولنے کی بھی زحمت نہیں کرنی اور انٹرنیٹ کے درست استعمال میں بھی دلچسپی نہیں لینی۔ سفر 2024 میں میٹرو ٹرین پر کرنا ہے اور تکلف و تھکاوٹ 1924 کے پیدل سفر والی محسوس کرنی ہے!
یا تو سب کچھ بند کریں، کمپیوٹر، موبائل کو تالا لگائیں اور پڑھنے لکھنے اور درس و تدریس کا جو کام کرنا ہے، وہ صرف لائبریری میں بیٹھ کر کریں۔
یا پھر سیکھ لیں کہ جدید ٹولز اور ذرائع کو ان علمی، تحقیقی اور دعوتی کاموں کے لیے کیسے بہتر سے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
مجھے خود یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم یا ہچکچاہٹ نہیں کہ میں الحمد للہ بوقت ضرورت فورا گوگل، اسلام سؤال جواب، الدرر السنیہ، محدث فتوی، ریختہ وغیرہ ویب سائٹس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اور اپنے علمی و تحقیقی کاموں کے لیے مکتبہ شاملہ وغیرہ کو بھر پور استعمال کرتا ہوں۔
اور میری کوشش ہوتی ہے کہ یہ چیزیں اگر میں کسی کو سکھا سکوں، بتا سکوں، تو ضرور بتا دوں۔
جو کام ایک منٹ میں ہو سکتا ہے، اسے ایک گھنٹے پر کرنے پر اصرار کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ جہاز پر چار گھنٹے میں لاہور سے جدہ جا سکتے ہیں، تو پیدل سفر پر مصر کیوں ہیں؟
میں نے اپنے ماجستیر کے رسالہ میں بھی الحمد للہ المکتبۃ الشاملہ وغیرہ کا بھرپور استعمال کیا، اور باقاعدہ ہر ہفتے اپنے استاد محترم کو جا کر اپنی تحقیق اور ریسرچ ورک دکھایا کرتا تھا، جس پر الحمد للہ وہ مطمئن اور بہت خوش تھے۔
اور اس میں بعض ایسی چیزیں اور نکات بھی شامل ہو جاتے تھے، جو محض مکتبہ شاملہ اور جدید ٹولز کے استعمال کی بدولت ہی ممکن تھے، ورنہ کوئی کتنا بھی واسع الاطلاع اور کتابی کیڑا کیوں نہ ہو، وہ وہاں تک بظاہر نہیں پہنچ پاتا، جہاں کوئی سرچ انجن آپ کو چند لمحوں میں لے جاتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ براہ راست کتاب کو دیکھنے کے جو فوائد ہیں، یا صرف ڈیجیٹل بحث و تحقیق کے جو نقصانات ہیں، ان کے تدارک کے لیے انسان کو مکمل محنت کرنی چاہیے!
آنے والا زمانہ اتنا تیز ہے کہ اگر آپ کو جدید ٹولز پر دسترس نہیں ہے، تو ظاہر ہے آپ اس یلغار کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور کاموں کو اتنی جلدی نہیں سمیٹ سکتے، جتنا آپ سے مطلوب ہو گا!
اگر آپ کو کمپوزنگ یا ٹائپنگ نہیں آتی، تو اس کا مطلب ہے آپ کو لکھنا ہی نہیں آتا، اگر آپ کو جدید سرچ انجنز کا استعمال نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے سامنے ہزاروں لاکھوں کتابوں پر مشتمل لائبریری ہے لیکن آپ کو گوہر مقصود تک پہنچنے کا ہنر نہیں آتا!
لوگ سرچ انجنز سے آگے بڑھ کر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے بڑے بڑے کام خود کار طور پر لینا شروع ہوگئے ہیں، جبکہ ایک عام روایتی انسان ابھی تک اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ روزانہ اتنے سارے لوگوں کو کیسے ڈیل کیا جائے؟ ایک ہی بات بار بار کیسے لکھی جائے؟
علماء کو اس وقت ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے کہ سوال زیادہ ہوتے ہیں، جبکہ جواب دینے والے کم ہوتے ہیں، رہنمائی لینے والے زیادہ ہیں، رہنمائی کرنے والے کم ہیں!
یہ حقیقی مسئلہ ہے۔ لیکن آپ اسی بات کو ذرا اس طرح سمجھیں کہ فیس بک، یوٹیوب وغیرہ جتنے بڑے بڑے پلیٹ فارمز ہیں، ان کے پاس روزانہ آنے والے سوال و جواب اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
لیکن انہوں نے سارا کچھ مشینوں کو سمجھایا ہوا ہے، کمپیوٹرز کو ٹرین کیا ہوا ہے، جو روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو اسی طرح ڈیل کر لیتے ہیں، جیسے کسی انسان نے ڈیل کرنا ہوتا ہے، اور جہاں کسی انسان کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے پہلے بعد والے مراحل بھی مشینیں خود ہی سنبھال لیتی ہیں۔
فیس بک کے کروڑوں صارفین ہیں، لیکن اس نے سب کا ناک میں دم کر رکھا ہے، گویا کوئی ایک لفظ بھی آپ ان کی مرضی کے بغیر نہیں لکھ سکتے، لکھیں گے تو فورا وارننگ، بلاک وغیرہ۔ کیا مطلب ہے کہ انہوں نے ہر فیس بکیے کے پیچھے اپنی ٹیمیں لگائی ہوئی ہیں جو دن رات اسے مانیٹر کرتی رہتی ہیں… بالکل نہیں.. سب کچھ مشینوں کو سکھایا ہوا ہے، جو آٹو یہ کام کرتی رہتی ہیں!
جبکہ دوسری طرف ہم سے بعض دفعہ دو چار سو تعداد پر مشتمل ایک گروپ اپنی مرضی سے نہیں چلایا جاتا!
لہذا نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ علمی رسوخ اور پختگی کے ساتھ ساتھ ان جدید ٹولز پر دسترس حاصل کریں اور عصری اسلوب اور زبان میں علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں خدمات سر انجام دیں!
جب بھی کوئی نیا ٹول، نئی سہولت آتی ہے، سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کب اللہ تعالی ہمیں بھی یہ توفیق دے گا کہ ہم اسلام اور مسلمانوں کے ماحول اور ضروریات کے مطابق ان چیزوں کو استعمال کر پائیں گے!!
#خیال_خاطر