سوال (4811)

1: جانوروں میں روح نہیں ہوتی اگر ان میں روح ہو تو انسان اشرف المخلوقات نہیں ہو سکتا۔
2: اگر جانوروں میں روح ہے تو بتائیں کیسے اور پھر انسان اشرف المخلوقات کیوں؟
3: اور کیا ہندو بھی اشرف المخلوقات ہیں۔

جواب

یہ جو دعویٰ ہے کہ جانوروں میں روح نہیں ہوتی ہے ، بالکل بے بنیاد ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَمَا مِنۡ دَآبَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ” [هود: 6]

«اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے، سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے»
یہاں “دَآبَّةٍ” لفظ ہر زندہ مخلوق پر بولا گیا ہے، جانور روح رکھتے ہیں، اگر جانوروں میں روح نہ ہو تو یہ چل پھر نہیں سکتے ہیں، کھا پی نہیں سکتے ہیں، بغیر روح ان کا سلسہ تولید نہیں ہو سکتا ہے، ان کا مرنا اور ذبح کرنا نہ ہوتا۔
جانور میں روح ہے، انسانوں میں بھی روح ہے، انسان کو جو فضیلت دی گئی ہے، اس کا سبب عقل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَةٍ اَمۡشَاجٍۖ نَّبۡتَلِيۡهِ فَجَعَلۡنٰهُ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا” [الانسان : 2]

«بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا»
اس کے علاؤہ علم کی بنا پر انسان کو فضیلت دی گئی ہے، جانور اعمال کے مکلف نہیں ہیں، ان کے اعمال پر جنت و جہنم نہیں ہے، انسان مکلف ہے، انسان کے اعمال پر جنت و جہنم ہے۔
انسان کو خلافت ارضی دی گئی ہے۔

“وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓئِكَةِ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً” [البقرة: 30]

«اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں»
انسان کو جو روح دی گئی ہے، وہ فضیلت کا باعث نہیں ہے، اس کا تعلق عقل و علم سے ہے، جو اس کو مکلف بنایا گیا ہے، جو اس خلافت ارضی دی گئی ہے، اس بنا پر انسان کی فضیلت ہے۔
انسان ہونے کے ناطے ہندو بھی اشرف المخلوقات ہیں، لیکن اخروی نجات اور دنیاوی عزت ایمان اور عمل صالح پر ہے۔

“وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلًا” [الإسراء : 70]

«اور بلاشبہ یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا»
بنی آدم ہندو ، غیر مسلم، عیسائی اور ملحد سب آتے ہیں، انسان ہونے کے ناطے یہ بات کی جا رہی ہے۔ ہاں باقی مشرکین کے لیے کہا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“اُولٰۤئِكَ كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ‌ ؕ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ” [الأعراف : 179]

«یہ لوگ جانوروں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں»
ہر انسان اشرف المخلوقات ہے، لیکن کمال شرفیت اس انسان میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

آج کل میڈیکل سائنس بھی مان گئی ہے کہ جانوروں کے اندر روح ہے، حتی کہ وہ کہتے ہیں کہ نباتات کے اندر بھی شعور و احساس پایا جاتا ہے، اس کو وہ روح کہتے ہیں، یاد رکھیں کہ روح روح میں فرق ہوتا ہے، انسان کے اپنی روح میں بھی فرق ہوتا ہے، نطفے کے اندر بھی روح ہے، تبھی تو وہ آگے چلتا ہے، بعد میں جو مراحل ہیں، ان میں بھی روح کے مراحل ہوتے ہیں، اس کے بعد روح جو پھونکی جاتی ہے، وہ الگ مرحلہ ہے، قبر میں اور میدان حشر میں جو روح ہوگی، وہ ایک الگ مرحلہ ہے، اس طرح پانچ چھ تعلقات روح کے انسان کے ساتھ ہیں، جانور میں روح و شعور ہے، لیکن انسان کی طرح نہیں ہے، یہ بات سمجھنے کی ہے، جانور میں بھی روح ہے، انسان میں بھی روح ہے، دونوں کی روح میں فرق ہے، انبیاء اور عام بندوں میں فرق ہے، اس لیے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے کہ انسان اور جانور کے روح میں فرق ہے، انسان افضل ہے، باقی ہندو انسان ہونے کے ناطے باقی مخلوقات سے اشرف ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ