سوال (2340)
اسلم اور اکرم ان دونوں کے درمیان طے پایا ایک کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوگی اور منافع دونوں میں نصف نصف تقسیم ہوگا۔
اسلم کے سرمایہ سے اکرم نے 10 لاکھ کا ایک پلاٹ خریدا، قیمت ادا کر دی اقرار نامہ لکھوایا، فائل لے لی، پلاٹ کا قبضہ بھی مل گیا۔ پلاث ٹرانسفر ہونا باقی تھا، اقرار نامہ اور فائل اکرم کی سستی کی وجہ سے کسی تیسرے آدمی کے پاس تھی جو کہ اکرم نے اپنے قبضے میں نہ لی، حالانکہ یہ سارے کام اس کے ذمہ تھے۔ اسلم اور اکرم اس دوران پلاٹ فروخت کرنے کی کوشش کرتے رہے، اسلم نے 15 لاکھ میں پلاٹ زید کو فروخت کر دیا، قیمت وصول کر لی، اور اکرم کو کہا کہ پلاٹ ان کے نام ٹرانسفر کروا دو، اس نے کہا ٹھیک ہے۔
کچھ ماہ بعد پتا چلا کہ پلاٹ وہ تیسرا آدمی فروخت کر چکا ہے، جس کے پاس اکرم کی سستی کی وجہ سے اقرار نامہ اور فائل تھی۔
اب زید اسلم سے پلاٹ کا مطالبہ کرتا ہے، اسلم اکرم سے مطالبہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے، دھوکہ ہو گیا ہے، میں کیا کروں، جبکہ زید کو 15 لاکھ ادا کیے ہوئے 8 سال ہو گئے ہیں اور پلاٹ کی قیمت بھی دوگنا ہو چکی ہے۔ جبکہ وہ تیسرا آدمی جو پلاٹ فروخت کر گیا ہے وہ بیرون ملک مفرور ہے، فی الحال اس سے رابطہ ممکن نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پلاٹ کا ذمہ دار شرعی اعتبار سے کون بنتا ہے؟ اسلم یا اکرم یا دونوں؟ اگر زید کو قیمت واپس کی جائے تو 15 لاکھ یا اس پلاٹ کی موجودہ قیمت کے مطابق واپس کی جائے گی؟
جواب
بظاہر جس طرح سوال بیان کیا گیا ہے، اگرچہ اس پڑھے لکھے اور ہوشیاری دور میں اتنی آسانی سے اس طرح کے معاملات میں انسان پھنستا نہیں ہے، اگر واقعتا اس طرح ہے تو چونکہ اسلم اور اکرم دونوں کا کاروبار مشترکہ تھا، اس لحاظ سے دونوں اس پلاٹ کی قمیت زید کو ادا کرنے کے ذمیدار ہیں، اس لیے کہ یہ خود بھی اندھیرے میں رہے ہیں، یہ تیسرے بندے کو بھی اندھیرے میں لاکر بٹھادیا ہے، باقی جو اس وقت قیمت تھی، وہ ہی قیمت لوٹادیں۔ یہ دونوں مل کر اس کو ادا کردیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ