سوال (2250)
ڈاکٹر حضرات چند بیماریوں کی وجہ سے کزن میرج سے منع کرتے ہیں، اس کے بارے میں شرعی طور پر وضاحت فرما دیں، کیا ان کا منع کرنا صحیح ہے؟
جواب
ہم مسلمان ہیں، ہمیں زندگی گزارنے کے لئے ہر قسم کی راہنمائی کتاب و سنت سے لینا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مغربی تہذیب جو بات کہے وہ حدیث بن جائے اور جس کی وہ مخالفت کرے ہم بھی سوچے سمجھے بغیر اس کی مخالفت شروع کر دیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں کزن میرج پر قانونی پابندی عائد ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ایسا کرنا بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس طرح کا ذہن رکھتے ہیں کہ کزن میرج بیماریوں کا پیش خیمہ ہے اور ہمارے زرخرید میڈیا نے بھی اس قسم کا شور مچا رکھا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ ہر گز انسانوں کے لئے نقصان دہ نہیں اور جو چیزیں اسلام نے حرام کی ہیں وہ کسی صورت میں ہمارے لئے فائدہ مند نہیں بن سکتیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ہمیں قرآن وحدیث سے راہنمائی لینی چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ اے نبی ! ہم نے تمہارے لئے حلال کر دیں تمہای وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں اور تمہاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کزن میرج کی زد میں جتنے بھی رشتے آتے ہیں، ان کا نام لے کر وضاحت کی ہے کہ وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ اگر طبی نقطہ نظر سے ان میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کر دیتے اور آپ کی امت پر بھی پابندی لگا دیتے۔ لیکن اسلام نے ایسا کرنے کے بجائے ان رشتوں کی ترغیب دی ہے اور جن میں کوئی اخلاقی یا روحانی قسم کا خطرہ تھا تو ان پر پابندی لگائی ہے۔ کزن میرج کی وجہ سے جو خدشات ظاہر کئے جاتے ہیں ان کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض موروثی امراض والدین سے اولاد میں منتقل ہو جائیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک نسل کسی مرض میں مبتلا رہی ہے تو اسی گھرانے کی کئی نسلیں بالکل اس مرض سے محفوظ رہتی ہیں۔ بہر حال یہ لازمی نہیں کہ کزن میرج ہی بیماریوں کا سبب ہے بلکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ بیماریاں اللہ کی طرف سے ہیں وہ جس کو چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے، کبھی بیماری کا کوئی سبب ہوتا ہے اور کبھی بغیر سبب کے بھی بیماری لگ جاتی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق کزن میرج بالکل درست ہے اور ایسا کرنے سے بیمار اولاد پیدا ہونا ضروری نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[بحوالہ فتاویٰ اصحاب الحدیث]
فضیلۃ العالم عبداللہ عزام حفظہ اللہ
بحیثیت مسلمان ہمیں قرآن وحدیث سے رہنمائی لینی چاہیے، ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ جو رشتے اللہ تعالیٰ نے حلال کیے ہیں اگر ان میں کوئی نقصان ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی ذات علیم وخیبر ذات ہے وہ ہرگز نقصان دہ رشتے ہمارے لیے حلال نہ کرتی۔
اس لیے کزن میرج میں شرعا قباحت نہیں ہے، ہم اس میڈیا سے زیادہ ہی متاثر ہیں جس کا قرآن وسنت اور توکل پر ہرگز ایمان نہیں ہے۔
اگر لاکھوں کزن میرج میں چند ایک میں طبی مسائل آتے ہیں تو دوسرے رشتوں میں جو طبی مسائل آتے ہیں ان کے بارے کیا کہیں گے؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ..” [الاحزاب:50]
’’ اے نبی! ہم نے تمہارے لئے حلال کر دیں تمہای وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں اور تمہاری وہ چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کزن میرج کی زد میں جتنے بھی رشتے آتے ہیں، ان کا نام لے کر وضاحت کی ہے کہ وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ اگر طبی نقطہ نظر سے ان میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کر دیتے اور آپ کی امت پر بھی پابندی لگا دیتے، کزن میرج رشتے ہوتے رہے لیکن آج کے دورمیں طبی لحاظ کیسے نقصان دہ ہو گئے؟
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
کزن میرج میں کوئی برائی نہیں، مشاہدہ یہ ہے کہ “صرف کزن میرج کے سبب” میڈیکلی بھی کوئی مسائل پیدا نہیں ہوتے ہیں، ڈاکٹر حضرات کی جانب سے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ کزن میرج سے خاندانی بیماریاں بچوں میں منتقل ہو جاتی ہیں یا اس طرح کے کچھ اور مسائل ذکر کیے جاتے ہیں جو کہ بے بنیاد ہیں۔ مشاہدہ اور تجربہ اس کے بالکل برعکس ہے، اگر کسی جگہ اس طرح کا کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو یہ تو خاندان سے باہر شادی میں بھی کبھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بنیاد بالکل درست نہیں ہے۔
اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں، میڈیکل کی فیلڈ میں ڈاکٹرز کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرنے والے کہ یہ ان کا میدان ہے اور وہ ان مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ انہی ڈگریز کے حامل بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا بالکل یہی ہے کہ “کزن میرج” میں کوئی پرابلم نہیں ہے، ہاں اکثر لوگ خاندان میں شادی کرنے سے پہلے کوئی ٹیسٹ وغیرہ کروا لیتے ہیں، بعض علماء تو اس سے بھی منع کرتے ہیں ، کیونکہ ایسی چیزیں عقیدے کی کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن اگر متعدی بیماری کا عقیدہ رکھے بغیر احتیاطاً [ اپنا وہم دور کرنے کے لیے] کوئی ٹیسٹ کروا لے تو اسے ناجائز بھی نہیں کہا جائے گا۔
واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ
اگر لمبے عرصے تک کزن میرج ہوتی رہے تو جینز کے ری پیٹ ہونے کی وجہ سے کچھ پیچیدگیاں ماہرین کے نزدیک پیدا ہو جاتی ہیں یا ایسی پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات صحیح ہو جو خالصتاً سائنسی بنیاد پر کہی جاتی ہے۔ اس صورت میں خاندان سے باہر شادی کو فروغ دینا چاہیے ، دین کو اس سائنسی تحقیق سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ کزن میرج کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے۔
اگر کزن میرج میں ایسے نقصانات کا اندیشہ ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
اگر عام لوگوں کو میڈیکل فیلڈ کے بارے میں دخل دینے کی اجازت نہیں تو ڈاکٹر حضرات کو شریعت کے فیلڈ میں دخل دینے کا حق کس نے دیا ہے؟
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
یہ صرف بد شگونی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بد شگونی لینا شرک ہے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی ڈاکٹر میڈیکل سائنس اس کی ترقی اس کا انکار نہیں ہے لیکن یہ ابھی تک گمان میں اٹکے ہوئے ہیں خود بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ