سوال (4425)

اکثر دکانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا، کیا شرعی نکتہ نظر سے یہ درست ہے یا خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ واپسی کا سسٹم رکھا جائے۔

جواب

یہ مسئلہ “بیع میں خیار اور خریدار و فروخت کنندہ کے حقوق” سے تعلق رکھتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے درج ذیل نکات کی روشنی میں اس کا جواب دیا جا سکتا ہے:
عمومی طور پر اسلام میں خرید و فروخت کا معاملہ رضامندی اور خیرخواہی (نصیحت) پر مبنی ہونا چاہیے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«البیعان بالخیار ما لم یتفرقا، فإن صدقا وبینا بورک لهما في بیعهما، وإن کتما وکذبا مُحقت برکة بیعهما»(متفق علیہ)

یعنی: بیچنے والا اور خریدنے والا جب تک جدا نہ ہوں، اُنہیں اختیار ہوتا ہے، اگر سچ بولیں اور عیب ظاہر کریں تو بیع میں برکت ہوگی، اور اگر جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو برکت ختم ہو جائے گی۔
اگر مال عیب دار یا وصف کے خلاف ہو تو شرعاً خریدار کو واپس کرنے کا پورا حق حاصل ہے، اور دکان دار پر واجب ہے کہ وہ مال واپس لے، کیونکہ یہ دھوکہ دہی میں شامل ہوگا۔
اور اگر مال درست ہے اور خریدار صرف اپنی پسند کی وجہ سے واپس کرنا چاہتا ہے تو یہاں “خِیَارُ الشَّرْط” اور “خِیَارُ الرُؤْیَۃ” وغیرہ کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔ اگر خریداری کے وقت کوئی شرط نہ رکھی گئی ہو، تو دکاندار شرعاً پابند نہیں، مگر خیر خواہی اور حسنِ معاملہ کی بناء پر واپسی قبول کرنا مستحب اور باعثِ اجر ہے۔
اگر دکاندار نے دکان پر لکھ دیا کہ “خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا” تو یہ شرط جائز ہے اگر مال عیب دار نہ ہو اور خریداری کے وقت اس شرط کو خریدار نے جان لیا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عیب دار چیز بھی واپس نہ لے لہٰذا یہ شرط خود میں ناجائز نہیں، لیکن اگر اس کا سہارا لے کر کوئی ظلم یا دھوکہ دیا جائے تو یہ حرام ہو جائے گا۔
اسلام میں نرمی، تعاون، اور لین دین میں سہولت پیدا کرنے کی بڑی ترغیب دی گئی ہے:«رحم الله عبداً سمحاً إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقتضى»(البخاری)
یعنی: اللہ اس بندے پر رحم کرے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی کرے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ