سوال (3248)
اس مذکورہ موقف کے بارے رہنمائی فرمائیں، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جراب یعنی جوربین اور موزے یعنی خفین کے ما بین فرق ہے یا نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں چمڑے کے جرابوں کو خفین کہا جاتا تھا۔ اور چمڑے کی جراب ایسی چیز ہے کہ جس کے اندر پانی ڈالا جائے تو وہ پانی اٹھائے رکھتی ہے، جب کہ جراب بھی خفین کے قائم مقام اسی وقت بنے گی جب وہ اپنے اندر پانی کو اٹھا لے، یعنی اگر اس میں پانی ڈالا جائے تو پانی لیک نہ ہو،
کیونکہ جراب فارسی زبان میں بطور جراب بھی استعمال ہوا ہے، یعنی اس کا مطلب آب یعنی پانی کو جوڑ کر رکھنے والا آلہ (برتن جیسی شئے)، اسی لیے فارسی میں ایسے آلے کو جراب کہا جاتا ہے، جو پانی اپنے اندر اٹھائے رکھے، تو ایسی جراب یعنی خفین پر مسح کرنا چاہیے، جس میں پانی اٹھائے رکھنے کی اضافی خوبی پائی جائے۔
واللہ اعلم بالثواب
جواب
کسی بھی حدیث میں جراب کی قسم، خاصیت، اونی، سوتی، موٹی بریک وغیرہ ذکر اور بیان نہیں ہوا ہے، جس بھی چیز پر لفظ جراب صادق آئے گا، وہ جراب ہی کہلائے گی چاہے، جس بھی قسم سے ہو، جب جراب پر مسح کرنا متعدد صحابہ کرام سلف صالحین سے ثابت ہے تو اس قدر تکلف و سختی کیوں؟
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل: محترم علماء کرام ایک مسئلے میں رہنمائی درکار ہے، میں خود اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک وقت تک میں جرابوں پر مسح کیا کرتا تھا، پھر میں نے دیکھا کہ جہاں کہیں بھی جرابوں پر مسح کا ذکر ہے وہاں ائمہ کرام اور شارحین حدیث نے کچھ شرائط ضرور ذکر کی ہیں کم سے کم شرط ان کا موٹا ہونا دبیز ہونا ذکر کیا گیا ہے اس بارے میں میں نے بعض علماء سے بھی رہنمائی لینے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ آخر کتنی موٹائی کو ہم یہ سمجھیں کہ یہ جراب کے حکم میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ خواتین کی بعض جرابیں بہت باریک بھی ہوتی ہیں انہیں بھی ہم جراب ہی کہتے ہیں اس معاملے میں مجھے واضح جواب نامعلوم نہ ہو سکا، مزید مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ عرب کے بعض سلفی علماء کرام بغیر کسی شرط کے جرابوں پر مسح کے قائل ہیں لیکن جمہور بشمول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شرائط کے ساتھ جرابوں پر مسح کے قائل ہیں جن شرائط کا ذکر کیا جاتا ہے اس طرح کی جوابیں مجھے آج کے دور میں ہم جو استعمال کرتے ہیں ویسی معلوم نہیں ہوئی اس لیے میں نے احتیاطاً جرابوں پر مسح کرنا چھوڑ دیا ہے اگر اس معاملے میں کوئی ایسی واضح دلیل مہیا کی جا سکے جس میں موجودہ جرابوں کا ان جرابوں جیسا ہونا ثابت ہو جائے تو میرے لیے آسانی کا معاملہ ہو جائے گا۔ جزاکم اللہ خیرا۔
شرائط آپ حضرات جانتے ہیں جیسا کہ بعض نے پانی کا اس میں سے نا چھننا ذکر کیا ہے، بعض نے ان کا موٹا ہونا اور بعض نے ان کا سیدھا کھڑے ہونا پہننے کے بعد بغیر کسی باندھے ہوئے ذکر کیا ہے۔
جواب: محترم آپ بال سے کھال اتارنے لگے ہیں جب آپ کی عقل کے مطابق جراب ملے تو آپ تب مسح کر لینا۔ آپ مزید تفصیل سے گریز کریں
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
شرط ایک وضعی حکم ہے، اس کی مشہور ومعروف تعریف جو اصول فقہ کے متون میں بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے:
“ما يلزم من عدمه العدم، ولا يلزم من وجوده الوجود”
اور اس کی سب سے مشہور مثال طہارت ہے جو کہ نماز کی شرط ہے۔
اب یاد رکھیں کہ حکم چاہے وضعی ہو یا تکلیفی اپنے ثبوت کے لیے نص صریح و صحیح کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی لیے شرط کے حوالے سے ایک قاعدہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ:
“أن الشارع هو الذي جعله شرطا للأحكام”.
امتی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی ذہنی اختراع کے طور پر یا پھر عقل کی سمجھ بوجھ کی حد تک کسی شرعی حکم کی شرائط بناتا پھرے ؟ خصوصا اگر وہ شرعی حکم عبادات میں سے ہے۔
سلمنا الله تعالى من التقليد الأعمى.
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں جو سائل نے پوچھا ہے۔ المسح على الجوربين کی احادیث مبارکہ میں چار شرائط ملتی ہیں، چاروں شرائط مع احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:
1- یہ کہ جوربین کو حالت طہارت میں پہنا گیا ہو
بدليل قوله صلی الله عليه وسلم للمغيرة بن شعبة: دعْهما فإنِّي أدخَلتُهما طاهرتَيْن۔
2- یہ کہ یہ جوربین بذات طاھر ہوں،
بدليل أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم صلَّى ذات يوم بأصحابه وعليه نعلان فخلعهما في أثناء صلاته وأَخبَر أنَّ جبريل أخبره بأنَّ فيهما أذىً أو قذَرا.
3- یہ کہ ان جوربین پر مسح بوجہ حدث اصغر کیا جائے، حدث اکبر نہیں،
بدليل حديث صفوان بن عسَّال رضي الله عنه قال: أَمرنا رسول الله إذا كنَّا سَفرا أنْ لا نَنْـزِع خِفافنا ثلاثة أيام ولياليَهُنَّ إلاَّ من جنابة ولكنْ من غائط وبول ونوم.
4- یہ کہ ان پر مسح شرعی معین کردہ مدت کے اندر اندر کیا جائے،
بدلیل حديث عليِّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال: جعل النبي صلی الله عليه وسلم للمقيم يوما وليلة وللمسافر ثلاثة أيام ولياليَهن ، يعني في المسح على الخُفين.
اس کے علاوہ بیان کردہ شرائط دلیل کی محتاج ہیں۔ اسی لیے جمہور اصولیوں کے ہاں عبادات میں شرط کی اصل یہ کہ وہ شرعی ہو۔ میں اپنے ناقص علم کے مطابق ان چار شرائط کے علاوہ بیان کردہ شرائط کو الشرائط غير الشرعية تصور کرتا ہوں۔
“فإن هذه الشروط كلها اختص الشرع بوضعها … وليس لأحد التصرف فيها بالتغيير أو التبديل، أو الزيادة، أو النقصان. وسواء كانت هذه الشروط شروطا للسبب، أو الحكم مقدورة للمكلف أو غير مقدورة له مكلفا بتخصيصها لشروطها أولا، فإنها جميعا شروط شرعية اختص الشرع بوضعها، ويتوقف عليها وجود مشروطاتها”.
(( الشرط عند الأصوليين وأثره الأحكام الشرعية للباحث إسحاق موسى كوني. ص: ٢٢٨ )).
مزید تفاصیل کے لیے درج ذیل کتب دیکھیں:
علم أصول الفقه للخلاف، أصول الفقه الإسلامي للزحيلي، والحكم الشرعي عند الأصوليين للباحسين.
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ