سوال (991)

لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے ؟

جواب

اس حوالے سے علماء دو قول پائے جاتے ہیں۔
(1) : جو علماء قائل ہیں ، ان کا استدلال صحیح البخاری کی مندرجہ ذیل روایت سے ہے ۔
سیدنا سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔

‏‏‏‏‏‏”أَنَّ امْرَأَةً عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏زَوِّجْنِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي وَلَهَا نِصْفُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَهْلٌ:‏‏‏‏ وَمَا لَهُ رِدَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَمَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ أَوْ دُعِيَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ يُعَدِّدُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمْلَكْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ” [صحيح البخاري : 5121]

«ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ سے نکاح کے لیے پیش کیا۔ پھر ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ! ان کا نکاح مجھ سے کرا دیجئیے۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارے پاس (مہر کے لیے) کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور تلاش کرو، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کوئی چیز نہیں پائی۔ مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ یہ میرا تہمد میرے پاس ہے اس کا آدھا انہیں دے دیجئیے۔ سہل ؓ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ مگر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی، اگر یہ اسے پہن لے گی تو یہ اس قدر چھوٹا کپڑا ہے کہ پھر تو تمہارے لیے اس میں سے کچھ باقی نہیں بچے گا اور اگر تم پہنو گے تو اس کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ پھر وہ صاحب بیٹھ گئے، دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد اٹھے (اور جانے لگے) تو نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا اور بلایا، یا انہیں بلایا گیا (راوی کو ان الفاظ میں شک تھا) پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں، فلاں سورتیں یاد ہیں چند سورتیں انہوں نے گنائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے نکاح میں اس کو اس قرآن کے بدلے دے دیا جو تمہیں یاد ہے»
(2) : جو علماء منع کرتے ہیں وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں ۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‏‏‏‏‏‏”أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ شَبَهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَطَرَحَهُ ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَطَرَحَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ أَتَّخِذُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اتَّخِذْهُ مِنْ وَرِقٍ وَلَا تُتِمَّهُ مِثْقَالًا”
[سنن ابي داؤد : 4223]

«ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، وہ پتیل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا بات ہے، میں تجھ سے بتوں کی بدبو محسوس کر رہا ہوں؟ تو اس نے اپنی انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے، میں تجھے جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے دیکھتا ہوں؟ تو اس نے پھر اپنی انگوٹھی پھینک دی، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کس چیز کی انگوٹھی بنواؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاندی کی بنواؤ اور اسے ایک مثقال سے کم رکھو»
ہمارا رجحان اس طرف ہے کہ لوہے کی انگھوٹی نہیں پہننی چاہیے ، صرف اس کو انگوٹھی تک اس کو محدود رکھیں ، اور چیزوں میں اس کا اطلاق نہیں ہوگا ، مزید یہ بحث شاید مردوں تک محدود ہے ، بہرحال سختی نہیں ہے ، لیکن ہمارے نزدیک اولی یہ ہے کہ نہ پہنی جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ