سوال (1935)
ایک بندے نے نذر مانی ہے کہ اس کی جتنی آمدنی ہوگی اس میں سے دس ، پندرہ یا بیس پرسنٹ صدقہ کرے گا، اب وہ بندہ گھر کے خرچے اور بلز وغیرہ کی وجہ سے انتہائی مشکل میں ہے، کیا وہ اپنا پرسنٹیج کم کر سکتا ہے، اس کے علاوہ بھی شرعی رہنمائی کریں۔
جواب
شرعا نذر ماننے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی لیکن اگر کوئی نذر مان لیتا ہے تو پوری کرنی ضروری ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے۔
“نهَى رسولُ اللهِ ﷺ عن النَّذرِ، وقال: إنَّه لا يرُدُّ شيئًا، إنَّما يُستخرَجُ به من الشَّحيحِ”[النسائي:3802]
کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے۔
نذر پوری کرنے کے بارے نبی ﷺ کا فرمان ہے۔
“من نذر أن يُطِيعَ اللهَ فلْيُطِعْهُ، ومن نذرَ أن يعصِيَه فلا يَعْصِه” [صحيح البخاري:6696]
کہ جو شخص اس بات کی نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو اسے اللہ تعالی کی اطاعت کرنی جاہیے یعنی نذر پوری کرنی جاہیے اور جو شخص نذر مانے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرے۔
کوشش کے باوجود اگر کوئی نذر پوری نہیں کر پا رہا ہے یا حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے مانی ہوئی اطاعت والی نذر کا پورا کرنا دشوار ہوگیا تو ایسی صورت میں نذر کا کفارہ ادا کردے تو نذر پوری ہو جائے گی ۔ نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ” [صحيح مسلم: 1645]
کہ نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
اور قسم کے کفارے کا بیان قرآن میں مذکور ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [المائدۃ: 89]
اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے، جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ