سوال (1421)
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پاک کو خواب میں دیکھا ہے ۔۔؟
جواب
تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ خواب میں دیکھا ہے، جیسا کہ حدیث ثابت ہے۔ (على خلاف في ذلك)
2۔ آنکھوں سے عام حالت میں نہیں دیکھا ۔ (ولا نعلم في هذا خلاف)
3۔ معجزے کی صورت میں معراج کی رات دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ (كما قال ابن عباس)
4۔ معراج کی رات آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ (كما هو ثابت في الصحيح)
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
سائل :
کیا غیر نبی کے لیے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا ممکن ہے؟
جواب :
امام نووی رحمہ اللہ نے اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے کہ دیکھا جا سکتا ہے۔
[دیکھیں شرح صحیح مسلم]
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
اس بارے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔
وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا دیدار حالت خواب میں ہو سکتا ہے ، واللہ اعلم
البتہ امام احمد رحمہ اللّٰہ کا مشہور واقعہ ثابت نہیں۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية: وقد تبين بما ذكرنا أن الحديث الذي فيه “اتاني ربي في أحسن صورة، ووضع يده بين كتفي” إنما كان في المنام بالمدينة، ولم يكن ذلك ليلة المعرج كما يظن كثير من الناس.
اس حدیث کی صحت کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ معراج دو دفعہ ہے۔
ایک دفعہ منام میں روح کا معراج۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جس میں اللہ کو دیکھنے کا ذکر ہے اور یہ مدینہ میں ہے اور دوسرا معراج روح اور جسم دونوں کے ساتھ حالت بیداری میں
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
جی، دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔ خواب والے میں بھی رؤیت ہے اور معراج والے میں بعين القلب ہے ۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
شیخ اسی کا کہہ رہا ہوں کہ علماء حدیث ابن عباس کو مدینے میں ہونے والا دیدار ہی بتلاتے ہیں۔ ، کیونکہ روایت کے مختلف الفاظ اسی کی تائید کرتے ہیں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
ذكر شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله وآخرون أنه يمكن أنه يرى الإنسان ربه في المنام، ولكن يكون ما رآه ليس هو الحقيقة؛ لأن الله لا يشبهه شيء سبحانه وتعالى، قال تعالى: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
فليس يشبهه شيء من مخلوقاته، لكن قد يرى في النوم أنه يكلمه ربه، ومهما رأى من الصور فليست هي الله جل وعلا؛ لأن الله لا يشبهه شيء سبحانه وتعالى، فلا شبيه له ولا كفو
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
بہرحال اس کی تفصیل دیکھنی پڑے گی کیونکہ حدیث ابن عباس میں ولقد رآه نزلة أخرى کی تفسیر ہے کہ رأه بفواده مرتين.
اس اعتبار سے دو دفعہ بن جاتی ہے ۔ واللہ أعلم. مزید بھی بتائیے اگر کوئی چیز علم میں ہو.. جزاکم اللہ خیرا
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
شیخ سب سے پہلے تو اس باب میں وارد احادیث کی صحت و ضعف کا قضیہ ہے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
علامہ البانی کتاب ظلال الجنة في تخريج السنة میں یہ بھی کہتے ہیں:
“قد روى معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس مرفوعا بلفظ: “رأيت ربي عز وجل فقال: يا محمد فيم يختصم الملأ الأعلى..” الحديث. أخرجه الآجري ص 496 وأحمد كما تقدم 388 فالظاهر أن حديث حماد بن سلمة مختصر من هذا وهي رؤيا منامية”
اس کو معاذ بن هشام قال: حدثنى أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلاجِ عن عبد الله بن عباس کی سند سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا اس نے پوچھا الملأ الأعلى کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اس کی تخریج کی ہے الآجري اور احمد نے جیسا کہ گزرا ہے پس ظاہر ہے کہ حماد بن سملہ کی حدیث مختصر ہے اور یہ دیکھنا نیند میں ہے
اس کے بر عکس شعيب الأرنؤوط مسند احمد میں اس پر حکم لگاتے ہیں
إسناده ضعيف، أبو قلابة- واسمه عبد الله بن زيد الجرمي- لم يسمع من ابن عباس، ثم إن فيه اضطراباً
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
قال : وكذا حمى رؤيتهم نفسهم . قال القاضي : واتفق العلماء على جواز رؤية الله تعالى في المنام وصحتها ، وإن رآه الإنسان على صفة لا تليق بحاله من صفات الأجسام ، لأن ذلك المرئي غير ذات الله تعالى ، إذ لا
يجوز عليه سبحانه وتعالى التجسم ولاختلاف الأحوال بخلاف رؤية النبي صلى الله عليه وسلم . قال ابن الباقلاني : رؤية الله تعالى في المنام خواطر في القلب وهي دلالات للرائي على أمور مما كان أو يكون كسائر المرئيات . والله أعلم ۔ نقل ذلك عن القاضي عياض رحمه الله
فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ
اس میں ابن باقلانی کی رائے صحیح ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے اعمال کے موافق صورت میں اللہ کا دیدار خواب میں ہوتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی خوبصورتی کے بقدر خوبصورت شکل اختیار کرتا ہے ، البتہ یہ تو ہے کہ اللہ اسی چیز کے موافق آتا ہے ، جس سے انسان متعارف ہیں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
تعبیر الرؤیا کی کتابوں میں رؤیت باری تعالیٰ فی المنام کی بحثیں دیکھیے۔حقیقی تفصیل وہیں ملے گی۔
فضیلۃ العالم کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
جامع الترمذی کی روایت بھی صحیح نہیں ہے : کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق خالد کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے ان سے مرسل روایت کرتا ہے
خالد بن اللجلاج العامري ذكره الصغاني فيمن اختلف في صحبته وهو تابعي يروي عن أبيه وله صحبة وفي التهذيب لشيخنا أنه يروي عن عمر وابن عباس مرسلا ولم يدركهما
الذھبی تاریخ الاسلام میں اس کے لئے کہتے ہیں:
وَقَدْ أَرْسَلَ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عمر اور ابن عباس سے یہ ارسال کرتا ہے
اسی طرح اس میں قتادہ مدلس ہے جو عن سے روایت کر رہا ہے ، ان علتوں کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ