ہمارے لبرل “دوست” صبح دوپہر شام ڈاکٹر کے نسخے کی طرح راگ الاپتے ہیں کہ
“مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے”
لیکن جیسے ہی کوئی مذہبی آدمی سامنے آ جاتا ہے تو یہ اپنا ہی اصول بھول جاتے ہیں کہ “مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔”
اگلے روز میدان میں محمد رضوان نے نماز ادا کی اور اس کی تصویر وائرل ہو گئی۔ اب تصویر اتارنے میں تو رضوان کا کوئی قصور نہ تھا ۔ کھلاڑی جب میدان میں ہوتے ہیں تو لوگ ان کے ایک ایک لمحے کی تصویر اتار رہے ہوتے ہیں۔
جو تصویر خاص ہوتی ہے یا معمول سے ہٹ کے ہوتی ہے، وہ وائرل ہو جاتی ہے۔ محمد رضوان نے میدان میں نماز پڑھی ظاہر سی بات ہے کہ یہ “ہمارے ” معمول سے ہٹا ہوا معاملہ تھا، سو وائرل ہو گیا۔ لیکن اس کو لے کر ہمارے “لبرل مافیا” نے، کہ اتفاق سے جن کے نام عموماً مسلمانوں والے ہوتے ہیں، وہ طوفان اٹھایا کہ اخلاقیات بھی شرمندہ ہو گئیں۔
میں نہیں کہتا کہ ہمارے ان لبرلز کو نمازوں کے مسائل اور اوقات کا بھی پتہ نہیں ہوتا لیکن جس کو معلوم ہوتا ہے وہ اس پر اعتراض نہیں کرتا اور اگر معلوم ہونے کے باوجود اعتراض کرتا ہے تو بصد معذرت وہ نفاق کا ثبوت دیتا ہے۔
کیونکہ محمد رضوان نے جو نماز پڑھی تھی وہ پانی کے چند منٹ کے وقفے کے درمیان پڑھی تھی۔ اصولی طور پر کسی مسلمان کے لیے نماز دنیا میں موجود ہر شے سے اہم ہے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے حوالے سے فرمایا کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی یوں جانیے کہ اس کا سب کچھ برباد ہو گیا۔ نماز عصر کی نسبتاً زیادہ اہمیت ہے لیکن دوسری نمازیں بھی اپنی جگہ اسی طرح اہم ہیں۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ” نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حق نہیں”
نماز کے ترک کا اسلام میں کوئی تصور نہیں اور مؤخر کرنا بنا کسی مجبوری بھی جائز نہیں۔ سو محمد رضوان کا نماز عشاء کا اہتمام کرنے کا سبب یہ تھا کہ نماز کا وقت نکل رہا تھا اور کھیل کسی صورت نماز سے اہم نہیں ہے۔
اس کے پاس واحد آپشن یہ تھا کہ وہ ادھر پانی کے وقفے میں اپنا چند منٹ کا آرام قربان کر کے نماز ادا کر لیتا تو اس نے نماز ادا کر لی۔
یہ بہت بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے مسلمان معاشرے میں نماز اور نمازی انسان اتنے اجنبی ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کا نماز پڑھنا بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس وقت ٹیم کے جتنے کھلاڑی میدان میں موجود تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ انتظامیہ کو کہتے کہ پانی کے وقفے کو مزید چار سے پانچ منٹ بڑھا دیا جائے اور وہ سب باجماعت نماز ادا کرتے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دین یوں اجنبی ہوا کہ جس ایک شخص نے نماز ادا کی اس پر دکھاوے کی تہمتیں دھری جا رہی ہیں۔
ایک یہ دھوکہ دہی بہت عام ہو گئی ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھتا ہے تو اسے دکھاوا کہا جاتا ہے، نماز تو عبادت ہی سرعام کرنے کی ہے۔ نماز کوئی خفیہ کمروں میں ادا کرنے والی چیز ہے ہی نہیں ۔ یہ کوئی چھپا کر کرنے والی عبادت نہیں ہے کہ اگر کوئی سرعام کرے گا تو اسے دکھاوا کہا جائے گا۔ افسوس صد افسوس مسلمان اور مسلمانوں کے ملک میں نماز ادا کرنا بھی باعث طعن ہو گیا۔
میں ہرگز نہیں کہتا کہ باقی کھلاڑیوں نے بعد میں نماز ادا نہیں کی ہو گی، بطورِ مسلمان میرا فرض ہے کہ میں یہ گمان رکھوں کہ باقی کھلاڑیوں نے بعد میں لازمی نماز ادا کی ہو گی لیکن بروقت نماز ادا کرنا بعد میں پڑھنے سے کہیں افضل ہے۔ اس لیے محمد رضوان کا عمل ایک شاندار کام تھا اور جو اس پر طعنہ زنی کرتا ہے اسے اول اول نرمی سے سمجھائیں اور اگر اس کے دماغ میں بات نہ آئے تو اسے شٹ اپ کال دیجیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یقیناً ہمارے ایمان پر بھی سوالیہ نشان ہو گا۔

ابوبکر قدوسی