سوال (4804)
جو نمازیں رہ جاتی ہیں، ان کو بعد میں پڑھیں تو کیا ترتیب واجب ہے، کچھ علماء کے نزدیک ترتیب واجب ہے، جس شخص کی مغرب کی نماز رہ گئی ہے تو وہ عشاء کے ساتھ پڑھے گا، تین مغرب کی رکعتیں اور ایک میں نفل کی نیت کرے گا تو اس حوالے سے مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب
شیخ بن باز رحمہ اللہ کے مطابق ترتیب واجب ہونا راجح قول ہے،
لہذا جسکی مغرب رہ گئی ہو اور امام عشاء پڑھا رہا ہو تو اگر ایک رکعت رہ گئی تو باقی تین میں مغرب کی نیت کرکے امام کے ساتھ سلام پھیرے گا۔
اور اگر شروع سے شریک ہوا ہو تو تب بھی مغرب کی نیت سے شامل ہوگا اور تیسری رکعت کے بعد بیٹھا رہے گا (یہ صلاۃ الخوف سے استدلال ہے) یہاں تک کہ امام اپنی ایک رکعت پڑھا کر بیٹھ جائے پھر یہ امام کے ساتھ سلام پھیرے گا۔واللہ اعلم۔
باقی چوتھی رکعت بھی امام کے ساتھ پڑھ کر ایک رکعت نفل کی نیت کرلینا اگرچہ بعض علماء کا قول ہے لیکن ہمیں اسمیں تکلف نظر آتا ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
سائل: جس کی عصر کی نماز رہ گئی کیا مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر پھر عصر کے چار فرض بعد میں پڑھ سکتے ہیں۔ یا ترتیب لازمی ہے۔ طریقہ بتادیں۔
جواب: صحیح بات یہ ہے کہ ترتیب کو مقدم رکھا جائے، لیکن جماعت کی وجہ سے ترتیب آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ اضطراری کیفیت ہے، یہ کہنا کہ مغرب کے ساتھ عصر پڑھنا یا مغرب عشاء کے ساتھ پڑھنا، بیٹھے رہیں، آخر میں امام کے ساتھ سلام پھیریں، یہ عرب علماء کا فتویٰ ہے، اس کو صلاۃ الخوف پر قیاس کیا جاتا ہے، یہ محل نظر ہے، صلاۃ الخوف ایک خاص نماز ہے، اس کو اس قدر عموم پر نہیں لینا چاہیے، پھر امام کی اقتداء کا کیا معنی ہوگا، یہ صحیح نہیں ہے، جیسا عرب علماء کا فتویٰ ہے کہ اگر امام پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا ہے، آپ نے لقمہ دیا ہے، لیکن آپ کے لقمہ کو قبول نہیں کیا ہے تو آپ بیٹھے رہیں، اگر آپ نے امام کا ساتھ دیا ہے تو آپ کی نماز باطل ہو جائے گی، یہ عجیب سا فتویٰ ہے، جو اقتداء سے خارج کر دیتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ