سوال (2170)

مندرجہ ذیل دونوں حدیثوں کی بنیاد پر پہلے تشہد میں درود اور دعا کا حکم کیا ہے؟

حدثنا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، وَكَتَبْتُهُ مِنْ أَصْلِهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَنْ تَشَهُّدِ رَسُولِ اللَّهِ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ، وَفِي آخِرِهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَكُنَّا نَحْفَظُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ كَمَا نَحْفَظُ حُرُوفَ الْقُرْآنِ حِينَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ إِيَّاهُ قَالَ فَكَانَ يَقُولُ إِذَا جَلَسَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ: ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ ” قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ: وَفِي آخِرِهَا عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى، إِنَّمَا كَانَ يَجْلِسُهَا فِي آخِرِ صَلَاتِهِ لَا فِي وَسَطِ صَلَاتِهِ وَفِي آخِرِهَا كَمَا رَوَاهُ عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيِّ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَK708 – قال الأعظمي: إسناده حسن
[ابن خزيمة ,صحيح ابن خزيمة ,1/350]
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوْتَرَ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ، لَا يَقْعُدُ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، فَيُصَلِّي السَّابِعَةَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ

جواب

سنن ابن ماجه: 1191، سنن نسائی: 1720، السنن الکبری للبیھقی: 4308 کی صحیح روایت کے مطابق پہلے تشہد میں درود پڑھنا مستحب عمل ہے اور یہی مستحب والا موقف جن علماء کرام ومشایخ عظام کا ہے راجح اور أقرب إلى الحق ہے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

پہلے تشہد میں درود پڑھنا جائز ہے. اور یہ بہتر افضل مستحب عمل ہے.

أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْمَدُ اللَّهَ *وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدْعُو بَيْنَهُنَّ وَلَا يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ وَيَقْعُدُ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ كَلِمَةً نَحْوَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدْعُو،‏‏‏‏ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ. [سنن النسائي: 1721]

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیا کرتے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا تورات میں آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے (پھر) وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اور اللہ کی حمد کرتے، اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور ان کے درمیان دعائیں کرتے، اور کوئی سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعات پڑھتے اور قعدہ کرتے، راوی نے اس طرح کی کوئی بات ذکر کی کہ آپ اللہ کی حمد کرتے، اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔
اس حدیث میں تشہد کے بعد درود پڑھنا وتروں کے لیے خاص نہیں.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ غَيْرَ أَنْ نُسَبِّحَ وَنُكَبِّرَ وَنَحْمَدَ رَبَّنَا وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ وَخَوَاتِمَهُ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ *السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَلْيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَلْيَدْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ.
[سنن النسائي: 1164]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہر دو رکعت (کے بعد قعدہ) میں کیا کہیں، سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کی پاکی بیان کریں، اور اس کی بڑائی اور حمد و ثنا کریں، حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کے فواتح اور خواتم سکھا دیےہیں (یعنی وہ ساری باتیں سکھا دی ہیں جن میں خیر و بھلائی ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ہر دو رکعت کے بعد بیٹھو تو کہو:

التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله

تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ *اسے جو دعا بھی اچھی لگے اختیار کرے، اور اللہ عزوجل سے دعا کرے۔
اس حدیث میں درمیانی تشہد کے بعد دعا کا ذکر ہے اور دعا سے پہلے درود دیگر دلائل سے ثابت ہے, اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درمیانہ تشہد میں درود پڑھنا درست ہے۔
امام نوی رحمہ اللہ تعالی درمیانہ تشہد میں درود کو مستحب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

“وأما التشهدُ الأول فلا تجب فيه الصلاة على النبي ﷺ بلا خلاف، وهل تستحبّ؟ فيه قولان: أصحُّهما تستحبُّ، ولا تستحبُّ الصلاة على الآل على الصحيح، وقيل تستحبُّ”

پہلے تشہد میں بلا اختلاف درود فرض نہیں مستحب ہے یا نہیں, اس میں دو اقوال(دو رائے) ہیں, زیادہ صحیح(راجح) یہی ہے کہ پہلے قعدہ میں درود مستحب ہے۔
[الأذكار للنووي ١/‏١٣٤]
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی پہلے تشہد میں درود کو افضل ، مستحب قرار دیا ہے۔

وأما التشهد الأول فلا تجب الصلاة على النبي ﷺ، ولو واحدة، ولكن تستحب على الصحيح، يصلي على النبي ﷺ في التشهد الأول

جہاں تک پہلے تشہد کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ زیادہ صحیح یہی ہے کہ مستحب ہے۔
[فتاوى نور على الدرب لابن باز بعناية الشويعر جلد: 8، صفحہ: 367]
تنبیہ:
درمیانہ تشہد میں درود پڑھنے کی ممانعت، کراہت پر کوئی موقوف ، مرفوع روایت بھی ثابت نہیں، تمام تر ضعیف و غیرہ ہیں.
لہذا درمیانہ قعدہ میں تشہد کے بعد درود پڑھنا افضل، بہتر مستحب عمل ہے نا کہ محض جواز کی حد تک۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم احمد بن احتشام حفظہ اللہ