سوال (5193)
کیا پاؤں کا بوسہ لینا شرک نہیں ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ کی ادب المفرد سے دو روایات پیش کی جاتی ہیں۔
(1): سیدنا زرع بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تھے، آپ سے کہا، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور پاؤں کو تھاما اور بوسہ لیا۔
(2): سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھا کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیتے ہوئے۔
جواب
فرداً فرداً روایات کا مجھے علم نہیں، لیکن کسی محدث، عالم، فقیہ کے پاؤں کا بوسہ لیا جا سکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کا بوسہ لینا درست ہے، اس کو شرک سے تعبیر کرنا غلط ہے، باقی کیفیت کیا ہو، یہ ایک الگ بات ہے۔ جس طرح ہاتھ کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، اس طرح پاؤں کا بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، جس طرح امام مسلم نے امام بخاری رحمہ اللہ کو کہا تھا کہ اے اساتذہ کا استاذ اجازت دیں تو آپ کی پیشانی کے بعد آپ کے پاؤں کا بوسہ لوں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ہاتھ پاوں خاص کر پاوں کو بوسہ دینے کے بارے وضاحت نمبر وار نیچے کرنا چاہوں گا.
1۔ اس باب میں مختلف روایات ملتی ہیں جن میں صحیح و ضعیف دونوں موجود ہیں پس صحیح روایات کی وجہ سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔
2۔ صحیح روایات میں اس عمل کے فرض یا واجب ہونے کا پتا نہیں چلتا بلکہ صرف جواز کا پتا چلتا ہے۔
3۔ عمومی طور پہ ترمذی کی صحیح روایت میں بوسہ لینے کی ممانعت موجود ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ،
4۔ عمومی ممانعت پے پس منظر میں جب ایک جواز کا استثنی ملے تو وہاں استثنی پہ عمل کے لئے اس کی قیود کا خیال رکھنا بہت اہم ہوتا ہے اس مسئلہ میں ایک اہم قید شرک میں پڑنے کا ڈر نہ ہونا ہے اگر کوئی پوچھے کہ اس شرک میں نہ پڑھنے والے قید یا شرط کی دلیل کیا ہے تو ہم اس کے لئے فقہا کے ہاں پایا جانے والے دین کے ایک ذیلی ماخذ سد ذرائع کو پیش کر سکتے ہیں۔
5۔ اس سد ذرائع کی دلیل بخاری کی مرفوع روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ لولا ان قومك حديث عهد بجاهلية، لامرت بالبيت فهدم، فادخلت فيه ما اخرج منه یعنی لوگوں کی گمراہی کے ڈر کی وجہ سے ایک جائز کام کو ترک کر دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں شرک میں پڑنے کا وہ ڈر نہیں تھا جو آج ہے اسی لئے آج ہم جواز کے باوجود یہ دیکھیں گے کہ کہیں یہ کسی کو شرک یا حرام کام کی طرف تو نہیں لے جا رہا پس جہاں سب موحدین اور توحید کو مکمل سمجھنے والے ہوں وہاں تو یہ بغیر تکرار کے درست ہو گا البتہ جہاں کسی کے گمراہ ہونے کا خدشہ ہو وہاں اسکا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
پاؤں کو بوسہ دینے کے بارے میں کوئی روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے۔
البتہ ہاتھ کو بوسہ دینا سلف صالحین سے ملتا ہے۔ والله أعلم بالصواب
ہمارے علم وتحقیق کے مطابق رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو بوسہ دینے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
اسی طرح آج کسی بزرگ عالم دین کے پاؤں کو بوسہ دینے کا جواز بیان کرنا بھی بلا دلیل اور خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہاں ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ لیا جا سکتا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ