سوال (1938)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم وجوب کے لیے ہے ؟ جیسے “صلوا کما رایتمونی اصلی” اگر وجوب کے لیے تو کیا رفع الیدین کرنا واجب ہے؟ اور رہ جانے کی شکل میں کیا حکم ہے؟ اگر وجوب کے لیے نہیں تو قرینہ صارفہ کیا ہے؟ احکام کے وجوب سے پھرنے کی وضاحت کے حوالے سے بحث کن امھات الکتب میں موجود ہیں؟
جواب
جب امر کا صیغہ اپنی مراد پر دلالت کرنے والے تمام قرائن سے خالی ہو تو وہ وجوب کا تقاضا کرتا ہے، یہی جمہور کا قول ہے اور اسی پر دلیلیں دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً
(1) : ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إذْ أَمَرْتُكَ” [الأعراف:12]
جب میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دے دیا تھا تو تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا؟
(2) : ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“وَإذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يرْكَعُونَ” [المرسلات:48]
جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے۔
(3) : ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“فَلْيحْذَرِ الَّذِينَ يخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ”
[النور:63]
تو جو لوگ رسول اللہﷺ کے حکم کی نافرمانی (مخالفت) کرتے ہیں، وہ فتنے یا دردناک عذاب کے پہنچنے سے ڈریں۔
(4) : اسی طرح یہ فرمان الہٰی بھی کہ:
“أَفَعَصَيتَ أَمْرِ” [طه:93]
کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے؟
(5) : اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عبرت نشان بھی کہ:
“وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يكُونَ لَهُمُ الْخِيرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ” [الأحزاب:36]
جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کسی معاملہ کا فیصلہ کردیں تو کسی مؤمن مردوعورت کےلیے ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرامین ہیں۔ ان تمام دلائل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مامور (جس کو حکم دیا گیا ہو) کے لیے سوائے امر کو سرانجام دینے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے، جس کے ذریعے وہ وعید سے خلاصی، عذاب اور نافرمانی کی عار (ذلت) سے نجات پاسکے، اسی طرح صحابہ کا بھی امر کے ذریعے وجوب پر استدلال کرنا اس قاعدے کی ایک اور دلیل ہے اور چونکہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا یہ اجماع ہے، پھر اسی طرح اہل لغت کا اس غلام کی مذمت بیان کرنا اور اسے نافرمانی سے موصوف کرنا جو اپنے آقا کے حکم کو سرانجام نہ دے، بھی اس قاعدے کے درست ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کسی کی مذمت اور اسے نافرمان اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔
فضیلۃ العالم کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے ، درست مسئلہ یہی ہے کہ امر قرائن کے اعتبار سے کبھی وجوب کے معنی دیتا ہے اور کبھی استحباب کے۔
جیسے کہ
“فإذا قضيت الصلاة فانتشروا فى الأرض و ابتغوا من فضل الله” اور “وإذا حللتم فاصطادوا”
میں امر باعتبار قرائن مختلف مطالب ظاہر کر رہا ہے۔
سنت میں بھی اس کی مثالیں مل جاتی ہیں جیسے کہ “مروا ابابکر فلیصل بالناس” کو صحابہ نے ابتدا میں استحباب پر محمول کیا تھا۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
امر کا صیغہ کب وجوب اور کب کسی اور حکم میں ہوتا ہے؟ اس بارے ضابطہ طے ہے، امر کے صیغے میں جس کام حکم دیا جائے وہ فرض ہوتا ہے، اگر قرینہ صارفہ موجود ہو تو امر کا حکم بدل جاتا ہے۔
اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ اگر امر کا صیغہ ممانعت کے حکم کے بعد آئے تو ممانعت سے پہلے والے حکم کا فائدہ دیتا ہے، اگر ممانعت سے پہلے حکم وجوب ہی کا تھا تو وجوب کا ہوتا ہے، اگر استحباب کا تھا تو استحباب کا ہوتا ہے، اور اگر مباح کا تھا تو مباح ہوتا ہے۔ [من اصول الفقة على منهج اهل حديث: 113]
عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ”
یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو، تو کیا نماز کے بعد مسجد سے نکلنا ضروری ہے اور کیا کاروبار بھی ضروری ہے یا گھر میں آرام بھی کیا جا سکتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ اصل یہی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے وہ فرض ہوتا ہے، مگر قرینہ موجود ہو تو امر استحباب کے لیے بھی ہو تا ہے اور بیانِ جواز کے لیے بھی۔ یہاں اذان کے بعد بیع سے منع فرمایا تھا، اب اس ممانعت کی حد بیان فرما دی کہ یہ ممانعت نماز پوری ہونے تک ہے، اس کے بعد بیع کی اجازت ہے اور تمھیں اختیار ہے کہ مسجد سے نکل کر کاروبار میں مصروف ہو جاؤ، لیکن اگر کوئی مسجد میں رہے یا گھر چلا جائے، کاروبار نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اللہ نے احرام کی حالت میں شکار سے منع فرمایا، جیسا کہ فرمایا:
“لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُم” [ المائدۃ: ۹۵]
’’شکار کو مت قتل کرو، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو۔‘‘
پھر فرمایا:
“وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْ” [المائدۃ: ۲]
“اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو” یہاں شکار کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ احرام کھولنے والے شخص پر شکار کرنا فرض ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ احرام کھولنے کے بعد شکار کی اجازت ہے۔ [تفسیر القرآن الکریم: 698]
باقی رفع الیدین کے بارے سوال باقی ہے، امید ہے مشایخ اس بارے رہنمائی کریں گے۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
میں نے جو بات لکھی ہے، وہ شیخ عثیمین نے کہی ہے۔ مثالیں میری اپنی تھیں۔ میری رائے میں یہی موقف درست ہے، میں نے بھی یہی عرض کیا تھا کہ ان آیات میں امر بیان اباحت وغیرہ کےلیے ہے ، جس پر قرائن دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ شیخ نے لکھا ہے، ثابت ہوا ہے کہ امر کے معنی کا تعین قرائن سے ہوگا۔ وہ ابتداءً وجوب کے معنی میں نہیں ہوتا ہے،
اس بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ حدیث “مسی الصلاۃ” میں جن باتوں کا ذکر ہے وہی نماز کے واجبات ہیں۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
جو چیز شریعت میں ثابت ہو، اس کے متعلق وجوب یا عدم وجوب کی بحث ہی فضول ہے،
ابن عمر سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو فرمایا کہ اللہ کے رسول نے اور صحابہ کرام نے قربانی کی ہے۔ انہوں نے وجوب یا عدم وجوب کا جواب ہی نہیں دیا تھا۔ فلیتدبر والیتفقه اللھم وفق۔
یہ کام فرض ہے، فلاں چیز واجب ہے، یہ کام سنت ہے، یہ کام مستحب ہے، ایسی تقسیمات سے دینی احکام کی اہمیت کو کم کیا جاتا ہے، جو کام مشروع ہے، بس مشروع ہے، اسے ادا کیا جائے، ایک سچے مسلمان کو فرض، سنت، واجب اور مستحب سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
بحث رفع الیدین کے بارے میں ہے کہ اس کا حکم وجوب کا ہے یا استحباب کا؟
کیونکہ مالک بن حویرث کی حدیث
“وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي” [صحیح بخاری: 631]
میں امر کا صیغہ ہے، جو وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اگر استحباب کا حکم ہے تو قرینہ صارفہ کیا ہے؟
پہلی بات یہ ہے جیسا کہ الشیخ حفظہ اللہ نے کہی ہے کہ دینی احکام میں تقسیمات میں نہیں پڑنا چاہیے، بس جو مشروع ہے وہ مشروع ہے، ان کی بات عوامی سطح تک بالکل درست ہے، اس طرح کی تقسیمات کا نقصان ہوتا ہے، لیکن علمی دنیا میں اسے قبول کرنا پڑے گا۔
زیر بحث حدیث کے الفاظ نبی کریم ﷺ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو تب کہے تھے جب ان کا وفد نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ دن رہ کر نماز وغیرہ کے احکامات سیکھ کر واپس جانے لگا تو اس وقت آپ ﷺ نے انہیں نصحیت کی کہ نماز اس طرح پڑھنی ہے وغیرہ۔
اب سوال یہ کہ نماز میں بہت سے احکامات ہیں کیا ان سب کا اس حدیث کی روشنی میں حکم وجوب کا ہے؟
ظاہر سی بات ہے اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کا یہ حکم مجموعی نماز کی ہییت و کیفیت کے بارے ہے۔ نماز کے جزوی احکامات ہیں ان کے احکامات مختلف ہیں۔
ثابت ہوا کہ نماز میں رفع الیدین کے حکم کو اس حدیث کی روشنی میں نہیں دیکھا جائے بلکہ دیگر احکامات کی روشنی میں جو حکم لگے گا وہ لگایا جائے گا۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ