سوال (5190)

جو صحابہ کو گالی دے وہ کافر ہی ہے خواہ وہ نمازیں پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور اپنے تئیں گمان رکھتا ہو کہ وہ مسلمان ہے۔
بشر بن حارث رحمه اللہ[الشَّرْحُ والإبَانَةُ، لابنِ بَطَّةَ: ١٦٢]
مشائخ کرام رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ قول ثابت ہے اور اگر ثابت ہے تو وضاحت فرما دیں قرآن وسنت کی روشنی میں ایسی کون سی دلیل ہے جس بنا پر ہم کسی ایسے شخص کے اوپر کفر کا فتویٰ جاری کردیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو گالی دے؟

جواب

سلف صالحین، ائمہ عظام، اکابر مفسرین اور فقہائے کا صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر طعن کرنے والوں کے کافر ہونے کی بابت فتاوی:
1) امام مالك ابن انس رحمہ اللہ:
الخلال نے ابو بکر المروذی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:

الذي يشتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ليس لهم اسم أو قال: نصيب في الإسلام.

”جو نبی ﷺ کے صحابہ کو گالی دیتے ہیں ان کا برائے نام بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اسلام سے ان کا کوئی حصہ ہے۔”(السنة، للخلال، ج 2 / ص 557
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان {محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار} سے لیکر اس فرمان الہی تک {ليغيظ بهم الكفار}کی شرح میں لکھا ہے کہ:

ومن هذه الآية انتزع الإمام مالك رحمة الله عليه في رواية عنه بتكفير الروافض الذين يبغضون الصحابة رضي الله عنهم قال: لأنهم يغيظونهم ومن غاظ الصحابة رضي الله عنهم فهو كافر لهذه الآية ووافقه طائفة من العلماء رضي الله عنهم على ذلك.

”اس آیت سے امام مالک رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے بغض رکھنے والے روافضہ (شیعہ) کی تکفیر کا استنباط کیا ہے کیونکہ یہ صحابہ کرام کو غیظ دلاتے ہیں اور جو صحابہ کو غیظ دلائے تو وہ اس آیت کی رو سے کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت ــ اللہ ان سے راضی ہوــ نے اس پر امام مالک کی موافقت کی ہے۔”
(تفسير ابن كثير: ج 4 / ص219 )
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لقد أحسن مالك في مقالته وأصاب في تأويله فمن نقص واحداً منهم أو طعن عليه في روايته فقد رد على الله رب العالمين وأبطل شرائع المسلمين،

”امام مالک نے کافی اچھی بات کی ہے اور اس کی تاویل کرنے میں درستگی کو پایا۔ پس جس کسی نے کسی ایک صحابی کی شان گھٹائی یا ان کی روایت میں کوئی طعن کیا تو اس نے اللہ رب العالمین کو ٹھکرا دیا اور مسلمانوں کی تمام شریعتوں کو منسوخ کرڈالا ہے۔” (تفسير القرطبی: ج 16 / ص 297 )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:
امام الخلال نے السنۃ میں ابوبکر المروزی سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ ـــ احمد بن حنبل رحمہ اللہ ـــ سے پوچھا کہ جو ابوبکر، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنھم کو گالیاں دیتے ہیں، ان کا حکم کیا ہیں؟
امام احمد بن حنبل نے جواب دیا:

ما أراه على الإسلام.

”میرے نزدیک وہ اسلام پر نہیں ہیں۔” (کتاب السنة، للخلال، اثر روایت نمبر: 785)
امام الفریابی رحمہ اللہ:

عن موسى بن هارون بن زياد قال: سمعت الفريابي – وهو محمد بن يوسف الفريابي – ورجل يسأله عمن شتم أبا بكرٍ قال: كافر، قال: فيصلى عليه؟ قال: لا، وسألته كيف يُصنع به وهو يقول: لا إله إلا الله؟ قال: لا تمسوه بأيديكم، ارفعوه بالخشب حتى تواروه في حفرته.

”موسی بن ھارون بن زیاد روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن یوسف الفریابی سے سنا کہ ان سے ایک شخص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے تو آپ نے جواب دیا: نہیں۔
میں نے پھر آپ سے پوچھا کہ(اگر اس کی نمازہ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی) تو پھر اس کی لاش کے ساتھ کیا کیا جائے گا جبکہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے جسم کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ لکڑی کے ذریعے اسے اٹھا کر اس کی قبر میں ڈال دو۔” (کتاب السنة للخلال، روایت نمبر: 794)
غالبا الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی ایسا ہی کچھ فتویٰ ہے جس مفہوم یہ ہے کہ صحابہ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سےہے بلکہ یہ ارتدار عن الاسلام ہے پس جو شخص ان کو گالی دے گا او ران سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہے، کیونکہ وہ ناقلین شریعت ہیں انہوں نے حدیث و سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم تک پہنچایا، وہ ناقلین وحی ہیں انہوں نے قرآن کریم ہم تک پہنچایا، جو شخص ان کو گالی دے یا ان سے بغض رکھے یا ان کے فسق کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ

صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر طعن وشتم کرنا کبیرہ گناہ ہے اور ایسا کرنے والا فاسق و منافق ہے کیونکہ یہ کام وہی کرتا ہے جس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔
اس مسئلہ پر سلف صالحین کے اقوال پیش خدمت ہیں:
((سلف صالحین کے نزدیک صحابہ کرام پر طعن وجرح کرنے والے کون))
سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ کا موقف:

1۔ ﻭاﻟﺬﻱ ﻓﻠﻖ اﻟﺤﺒﺔ، ﻭﺑﺮﺃ اﻟﻨﺴﻤﺔ، ﻻ ﻳﺤﺒﻬﻤﺎ ﺇﻻ ﻣﺆﻣﻦ ﻓﺎﺿﻞ، ﻭﻻ ﻳﺒﻐﻀﻬﻤﺎ ﻭﻳﺨﺎﻟﻔﻬﻤﺎ ﺇﻻ ﺷﻘﻲ ﻣﺎﺭﻕ، ﻓﺤﺒﻬﻤﺎ ﻗﺮﺑﺔ، ﻭﺑﻐﻀﻬﻤﺎ ﻣﺮﻭﻕ، ﻣﺎ ﺑﺎﻝ ﺃﻗﻮاﻡ ﻳﺬﻛﺮﻭﻥ ﺃﺧﻮﻱ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﻭﺯﻳﺮﻳﻪ، ﻭﺻﺎﺣﺒﻴﻪ ﻭﺳﻴﺪﻱ ﻗﺮﻳﺶ، ﻭﺃﺑﻮﻱ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ؟ ﻓﺄﻧﺎ ﺑﺮﻱء ﻣﻤﻦ ﻳﺬﻛﺮﻫﻤﺎ، ﻭﻋﻠﻴﻪ ﻣﻌﺎﻗﺐ،

سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا ان دونوں سے صرف وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہو گا اور ان دونوں سے صرف وہی بغض رکھے گا اور مخالفت کرے گا جو بدبخت اور مارق (یعنی جو اسلام سے خارج) ہو گا کیونکہ ان دونوں سے محبت کرنا قرب الہی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں سے بغض رکھنا دین اسلام سے خارج ہونے کی علامت ہے۔
ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول الله صلى الله عليه وسلم کے دو بھائیوں،دو وزیروں،دو ساتھیوں،دو سرداروں،اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں ( سن لو) میں ایسے (بدبخت وگستاخ) لوگوں سے بری اور لا تعلق ہوں جو ان دونوں کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں میں اس پر انہیں ضرور سزا دوں گا۔
حلية الأولياء لأبي نعيم:7/ 201،أسد الغابة لابن أثير:4/ 156 سنده حسن لذاته

(2)أﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ: ﻣﻦ اﻟﺮاﻓﻀﺔ؟ ﻗﺎﻝ: اﻟﺬﻱ ﻳﺸﺘﻢ ﻭﻳﺴﺐ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﻭﻋﻤﺮ ﺭﺣﻤﻬﻤﺎ اﻟﻠﻪ۔

امام عبد الله بن أحمد رحمة الله تعالى کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم (امام احمد بن حنبل رحمه الله) سے پوچھا روافض کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا جو ابوبکر وعمر رحمہما الله کو گالی دیتا ھے وہ رافضی ھے۔
( السنة للخلال:(777) سنده صحيح ۔)

(3) أﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﺷﺘﻢ ﺭﺟﻼ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺭاﻩ ﻋﻠﻰ اﻹﺳﻼﻡ۔

امام عبد الله بن أحمد رحمه الله تعالى کہتے ہیں میں نے اپنے والد( احمد بن حنبل رحمه الله تعالى )سے پوچھا جو شخص کسی بھی صحابی کو گالی دیتا ھے اس کے متعلق آپکی کیا رائے ھے ؟ تو امام صاحب نے فرمایا: میں ایسے شخص کو اسلام پر نہیں سمجھتا ۔(السنة للخلال:(782) سنده صحيح)

(4) وﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺤﻤﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺷﺘﻢ ﺃﺧﺎﻑ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﻜﻔﺮ ﻣﺜﻞ اﻟﺮﻭاﻓﺾ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺷﺘﻢ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻻ ﻧﺄﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻗﺪ ﻣﺮﻕ ﻋﻦ اﻟﺪﻳﻦ۔

امام أبو عبدالله( أحمد بن حنبل رحمه الله) فرماتے ہیں: جو شخص گالیاں دیتا ھے مجھے روافض کی مثل اس پر کفر کا خوف ھے پھر فرماتے ہیں جو شخص نبی صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان الله علیهم اجمعین کو گالیاں دیتا ھے مجھے ڈر ھے کہ وہ دین اسلام سے خارج ھو گیا ھو ۔(السنة للخلال:(780) سنده صحيح )

(5) أﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﻤﺮﻭزﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﻣﻦ ﻳﺸﺘﻢ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ ﻭﻋﻤﺮ ﻭﻋﺎﺋﺸﺔ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺭﺁﻩ ﻋﻠﻰ اﻹﺳﻼﻡ، ﻗﺎﻝ: ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ: اﻟﺬﻱ ﻳﺸﺘﻢ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺳﻬﻢ، ﺃﻭ ﻗﺎﻝ: ﻧﺼﻴﺐ ﻓﻲ اﻹﺳﻼﻡ۔

ابوبکر المروزی رحمه الله فرماتے ہیں میں نے أبو عبدالله أحمد بن حنبل رحمه الله سے پوچھا کہ جو شخص سیدنا ابوبکر وعمر اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنهم کو گلی دیتا ھے اسکا کیا حکم ھے؟ تو آپ نے جواب دیا: میں اس کو اسلام پر نہی سمجھتا۔ ابوبکر المروزی رحمه الله فرماتے ہیں اور میں نے امام احمد بن حنبل رحمه الله سے سنا وہ کہتے ہیں امام مالک رحمه الله نے فرمایا: جو شخص کسی بھی صحابی کو گالی دیتا ھے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہی ہے۔( السنة للخلال:(779) سنده صحيح )
امام جعفر بن محمد الصادق رحمه الله فرماتے:

برئ الله ممن تبرأ من أبی بکر و عمر۔

جو شخص ابو بکر عمر رضی الله عنھما سے بری ہے الله تعالی اس سے بری ہیں ( یعنی ایسے خبثیث لوگ بدترین لوگ ہیں جو الله کی رضا و رحمت سے محروم ہیں)
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل:143 سندہ صحیح فضائل الصحابة للدارقطنی:(63،64) سندہ حسن لذاته، امالی للمحاملی:(229) سندہ حسن لذاته
ایک بندہ مسلم کبھی بھی صحابہ پر طعن یا ان کو گالی نہیں دے سکتا ہے یہ بری ترین حرکت وہی کرے گا جس کا دل ایمان وتقوی سے خالی ہے۔
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین پر طعن وجرح کرنا درحقیقت دین اسلام پر طعن وجرح کرنا اور الله تعالى کی طرف سے صحابہ کی بیان کردہ شان وعظمت کا انکار ہے۔
منکرین صحابہ کرام در حقیقت منکرین اسلام ،منکرین قرآن وحدیث اور منکرین ختم نبوت ہیں کیونکہ اس سب کے گواہ اور ترجمان صرف صحابہ ہیں۔
باقی کسی کی معین تکفیر ادلہ وقرائن کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ