سوال (2564)
صحیح مسلم میں تمیم داری والی روایت میں ہے کہ جب انہوں دجال سے ملاقات والا قصہ سنایا تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ایسے نہیں جس طرح میں تمہیں بیان کیا کرتا تھا اور دوسری روایت صحیح البخاری میں ہے جب حضرت عمر نے ابن صیاد کے متعلق کہا کہ میں اسے اسے قتل نہ کردوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو وہی دجال ہے تو تو اسے قتل نہیں کرسکتا اور یہ وہ نہیں ہے تو قتل کرنے میں خیر نہیں ہے، ان دونوں روایتوں کے متعلق ایک بندے نے کہا ہے کہ اس میں تطبیق کیا ہوگی تمیم داری والی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقین والے الفاظ میں کہا کہ وہ وہی دجال ہے جب کہ حضرت عمر والی روایت میں پھر یہ کیوں کہا اگر یہ وہ نہیں ہے تو قتل کر کرنے میں خیر نہیں تو شک والے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
جواب
سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ابن صیاد کی کوئی بحث نہیں ہے، اس میں دجال کی بحث ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی روایت الگ ہے، اس میں ابن صیاد کی بحث ہے ، جس کو دجال کہا جا رہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ دجال ہے تو آپ اس کو نہیں مار سکتے ہیں، اگر وہ نہیں ہے تو اس کو مارنے کا فائدہ نہیں ہے۔ دونوں حدیثیں الگ ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ