کیا سلف صالحات مَردوں کے سامنے مجالس لگاتی تھیں؟

امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور محدثات کا بوقتِ ضرورت غیر مَحرم مَردوں کو احادیث واَحکام کی تعلیم دینا ثابت ہے۔ کتبِ رجال میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں، کئی ایک عظیم عورتوں نے روایتِ حدیث میں حصہ لیا اور اُن کے بے شمار کبار علماء شاگرد ہوئے۔ البتہ اُن کے ہاں مجلسِ حدیث کا طریقہ کار ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ غیر مَردوں کے سامنے مجلسِ تحدیث پر براجمان ہوں، سب کی نظریں اُن پر ٹکی ہوں اور حَدَّثَنَا و أَخْبَرَنا کا کارِ خیر جاری ہو۔
ضمناً وضاحت ہے کہ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورت کا شرعی پردے کے ساتھ بوقتِ ضرورت باہر نکلنا، مَردوں کے سامنے آنا، بازار سے گزرنا جائز ہے، لیکن اُس کا اپنے آپ کو نگاہوں کا مَحور بنا لینا، کرسیءِ مجلس پر بیٹھ کر تعلیم و تعلّم کا سلسلہ سجا لینا، چاہے شرعی پردے میں ہو، نہ تو سلف صالحات سے ثابت ہے اور نہ ہی محدثات کی علمی مجالس کا طریقہ تھا۔
ہمارے ہاں جب سلف صالحات کے درس و تدریس کا ذکر ہوتا ہے تو اسے اپنے دور کی مجالس پر قیاس کرتے ہوئے سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بھی کوئی ایسے مَردوں کے سامنے مجلس لگا رکھی ہوگی۔ بالخصوص سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عمل کو پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی تو مَردوں کو حدیث کی تعلیم دی ہے پھر اس سے کھلی مجالس کا اہتمام ثابت کیا جاتا ہے حالانکہ
بطورِ مثال سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہی لے لیجیے، سیدہ رضی اللہ عنہا نے اَپنے حجرے میں پردہ لٹکا رکھا تھا، اگر غیر محرموں سے مخاطب ہونا ہوتا تو اُس کے پیچھے چلی جاتیں اور اَندر سے ہی بات کرتیں، احادیث سناتیں اور مسائل کا جواب دیتیں۔
کیوں کہ اللہ تعالی کا حکم بھی یہی تھا :

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ.

’’جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔‘‘ (سورة الأحزاب : ٥٣)
ذیل میں بطورِ مثال چند ادلہ درج ہیں؛
✿۔ مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ ام المؤمنین ! اگر کوئی شخص قربانی کا جانور کعبہ میں بھیج دے اور خود اپنے شہر میں مقیم ہو اور جس کے ذریعے بھیجے اسے اس کی وصیت کردے کہ اس کے جانور کے گلے میں ( نشانی کے طور پر ) ایک قلادہ پہنادیا جائے تو کیا اس دن سے وہ اس وقت تک کے لیے محرم ہو جائے گا جب تک حاجی اپنا احرام نہ کھول لیں ۔ مسروق کہتے ہیں کہ اس پر میں نے پردے کے پیچھے سے ام المؤمنین کے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارنے کی آواز سنی، پھر انہوں نے فرمایا….. إلخ‘‘ (صحیح بخاري : ٥٥٦٦)
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب اُن کے شاگرد مسروق آئے تو وہ پردے کے پیچھے چلی گئیں اور وہیں سے اُن کا سوال سنا اور پھر حدیث بیان کی۔
✿۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے، راوی بیان کرتے ہیں ؛

فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي.

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردے کے پیچھے سے فرمایا : ہمارے ( آل ابی بکر کے ) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ ” تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔‘‘ (صحیح بخاري : ٤٨٢٧)
✿۔ ابو سعید رقاشی بیان کرتے ہیں :

سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ ، فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جَرَّةً مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، فَقَالَتْ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ مَا يُصْنَعُ فِي هَذِهِ.

میں نے سیدہ عائشہ سے مٹکے میں نبیذ بنانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے پردے کے پیچھے سے میری طرف مٹکا کیا اور فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اِس میں تیار شدہ کو ناپسند کرتے تھے۔ (مسند أحمد :٣٦١٤٤ وصححه محققوه وانظر مسند أحمد : ٢٦٠٧٣)
✿۔ ایک طویل حدیث میں ہے کہ مسور بن مخرمہ، عبد الرحمن بن اسود اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اکٹھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، آ کر اَندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی، سیدہ نے اجازت دے دی. حدیث میں ہے

فَلَمَّا دَخَلُوا، دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ.

جب وہ سب داخل ہو گئے تو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پردے کے پیچھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے۔ (صحیح بخاري : ٦٠٧٣)
عبد اللہ بن زبیر چونکہ اَن کے بھانجے تھے اور سیدہ اُن سے ناراض تھیں، اس لیے وہ اُن کے پاس اَندر جا کر منانے لگے۔
✿۔ ابو عبد اللہ سالم سبلان بیان کرتے ہیں؛

كُنْتُ آتِيهَا مُكَاتَبًا مَا تَخْتَفِي مِنِّي، فَتَجْلِسُ بَيْنَ يَدَيَّ، وَتَتَحَدَّثُ مَعِي، حَتَّى جِئْتُهَا ذَاتَ يَوْمٍ، فَقُلْتُ : ادْعِي لِي بِالْبَرَكَةِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَتْ : وَمَا ذَاكَ ؟ قُلْتُ : أَعْتَقَنِي اللَّهُ. قَالَتْ : بَارَكَ اللَّهُ لَكَ. وَأَرْخَتِ الْحِجَابَ دُونِي، فَلَمْ أَرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ.

میں جب مکاتِب غلام تھا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کرتا تھا،وہ مجھ سے پردے میں نہیں جایا کرتی تھیں بلکہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے باتیں کیا کرتی تھیں حتی کہ میں ایک دن ان کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے ام المومنین! میرے لیے برکت کی دعا فرمائیے۔وہ کہنے لگیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے آزاد فرما دیا ہے۔وہ کہنے لگیں: اللہ تعالیٰ تمھارے لیے برکت فرمائے۔اس کے بعد میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا اور اس دن کے بعد میں نے انھیں نہیں دیکھا۔ (سنن النسائی : ١٠٠ صحیح)
✿۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو صہباء عبد اللہ الاصم کے متعلق بیان کیا ہے:

رأَى ستر عائشة رضي الله عنها في المسجد الجامع، تُكَلِّم الناس من وراء السِّتر، وتُسأل من ورائه.

’’انہوں نے مسجد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا پردہ لٹکا ہوا دیکھا تھا، وہ اس پردے کے پیچھے سے لوگوں سے بات کر رہی تھیں اور اُس کے پیچھے سے ہی اُن سے سوال کیے جا رہے تھے۔‘‘ (التاريخ الكبير : ٥/ ١٢١)
یہ چند ایک روایات بطورِ مثال ذکر کی ہیں اور بالخصوص چونکہ عموماً سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ بات کی جاتی ہے کہ وہ مَردوں کے سامنے اَحادیث بیان کرتی تھیں، اس لیے اَمثلہ بھی انہی کی ذکر کی گئی ہے۔
وگرنہ تمام صحابیات و محدثات کا یہی طریقۂ کار تھا، محدثین کا اِختلاف ہوا کہ اوٹ کے پیچھے سے حدیث کا سماع کیا جا سکتا ہے یا نہیں تو حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں فرمایا :

كذلكَ حديثُ أُمِّ المؤمنينَ عائشةَ وغيرِها مِن أُمَّهاتِ المؤمنينَ كنَّ يُحدِّثْنَ مِنْ وراءِ حجابٍ، وينقلُ عنهنَّ مَنْ سمعَ ذلكَ.

’’اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ اور دیگر امہات المومنین کا حدیث بیان کرنا بھی ہے کہ وہ پردے کی اوٹ سے احادیث بیان کیا کرتیں، جو اُن سے سنتا اسے آگے نقل کر دیتا۔‘‘ (التبصرة والتذكرة : ١/ ٤١٥)
فائدہ: جب محدثین کی مجالس میں طالبات ہوتیں تو وہ بھی پردے میں بیٹھا کرتی تھیں جیسا کہ حرة بنت القاضي الامام أبي عمر محمد بن الحسين البسطامي کے متعلق ہے؛
سمعتِ الْحديث من الخفاف والطبقة وكان يقرأ عليها من وراء الستر. ’’انہوں نے خفاف سے حدیث سنی اور وہ پردے کے پیچھے سے اُنہیں حدیث بیان کیا کرتے تھے۔‘‘ (المنتخب من كتاب السياق لتاريخ نيسابور – ط إيران ١/‏٣٢٩ — لأبي إسحاق الصريفيني)
امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ طلباءِ حدیث نے ابو الاشہب رحمہ اللہ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے اجازت دے دی اور کہا: سوال کر لو۔ وہ کہنے لگے : ہمارے پاس تو کوئی سوال نہیں۔

فَقَالَتِ ابْنَتُهُ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ : سَلُوهُ عَنْ حَدِيثِ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ.

تو اُن کی بیٹی نے پردے کے پیچھے سے کہا؛ آپ لوگ ان سے عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بارے میں پوچھ لو۔ (مسند أحمد : ١٠٢٧٦ وسنده صحیح)
بہرحال خلاصہ یہی ہے کہ سلف صالحات، محدثات کے عمل سے مَردوں کے سامنے مرکزِ نگاہ بن کر مسندِ تدریس پر براجمان ہونا بالکل ثابت نہیں ۔ وما توفیقی إلا بالله.

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: قلبِ سلیم (سلامتی والا، بے عیب دل)